ناصر زیدی ۔۔۔ میر ی ادبی زندگی کے ابتدائی ایام

میر ی ادبی زندگی کے ابتدائی ایام
من کہ مسمّیٰ ناصر زیدی (بہ قلم خود)

میری ابتدائی زندگی کا مختصر احوال یوں ہے:
۸ اپریل ۱۹۴۳ء کو ضلع مظفر نگر (یو۔ پی) انڈیا کے ایک گاؤں سنبھل ہیڑا میں پیدا ہوا۔ سید صغیر حسن زیدی والد مرحوم کا اسم گرامی ہے۔ ’’ساداتِ بارہہ‘‘ سے تعلق۔ آباؤ اجداد میں مشہورِ زمانہ دو بھائی ’’سیّدانِ بادشاہ گر‘‘ بھی تھے۔جب کہ مجھے ’’بادشاہ گری‘‘ کے بجائے درویشی ورثے میں ملی۔ ادب کا ذوق والد محترم کو بھی تھا، دادا ابا سید تفضل حسین زیدی شاہی طبیب تھے۔
دادا پوتے یعنی سید تفضل حسین زیدی اور سید ناصر رضا زیدی (ناصر زیدی) کا ذکرِ خیر ساداتِ بارہہ کے تذکرے میں عظیم و ضخیم کتاب ’’تاریخِ ساداتِ بارہہ‘‘ مولفہ ڈاکٹر سید صفدر حسین زیدی اور سید شیدا حسن زیدی میں فخرِ قوم کے ضمن میں موجود ہے۔ ہمارا آبائی گاؤں ’’سنبھل ہیڑا‘‘ کسی ہندو راجا نے ٹیلے پر آباد کیا تھا جس کا نام راجا سنبھل ہوگا۔!
مَیں بچپن ہی میں اپنی سب سے بڑی بہن کے سپرد کر دیا گیا جو اولاد سے محروم تھیں۔ بہن، بہنوئی کے ہاں، پلا بڑھا بہنوئی انڈین پولیس سروس میں تھے، ان کے ساتھ گاؤں، گاؤں شہر، شہر پھرا۔شہروں میں متھرا اور مسوری کے نام یاد ہیں۔ بہنوئی کی سخت گیری کے سبب مرحوم کے لیے اچھا تاثر نہیں رکھتا، یوں بھی اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے ماں باپ سے اولاد کو جدا کرنے کا عمل خوش گوار نہیں کہا جا سکتا۔انھی بہن بہنوئی کے ساتھ پاکستان آیا کہ بہنوئی نے انڈین پولیس سروس سے خود کو پاکستان کی پولیس سروس کے لیے ’’آپٹ‘‘ کیا تھا۔ راولپنڈی میں چوتھی جماعت تک ’’کو ایجوکیشن‘‘ کے تحت پاکستان گرلز سکول میں پڑھا۔
یہ اس زمانے میں موہن پورہ میں ہماری رہائش سے قریب ہی پیدل کے رستے پر واقع تھا۔ ایک بہت ہی خوش رُو ٹیچر مس شہناز نے ایک بار غصے میں میرے سر پر سلیٹ دے ماری، ماتھے میں ٹیک کھل گئی، خون کا فوارہ بہہ نکلا تو ’’مس‘‘ نے اپنا سفید شیفون کا دوپٹہ پھاڑ کر سر پر باندھا اور مجھے سینے سے چمٹا لیا، یہ لمس ہمیشہ کے لیے یادگار ٹھہرا، دل کا روگ بنا اور ہم ہجر کے صدمے سہتے ہوئے لڑکپن ہی میں شاعر بن گئے۔
قصہ یوں ہوا تھا کہ مخلوط ذریعہ تعلیم والے اس گرلز پرائمری و ہائی سکول میں چوتھی جماعت میں تھے، چند ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ مل کر ایک روز آدھی چھٹی کے وقفے میں ساری لڑکیوں کے بستوں سے املی چرا کے باجماعت اڑالی۔
پکڑے جانے پر متذکرہ سزا کے سزاوار ٹھہرے اور چوتھی سے پانچویں میں پروموٹ ہونے کے باوجود اسی سبب کوایجوکیشن سکول کی تعلیم کے مستحق نہ رہے کہ ہمارے لچھن کچھ ٹھیک نہ تھے، وہاں سے ماڈل ٹاؤن لاہور چلا آیا کہ اس وقت تک والدین پاکستان آ چکے تھے۔ ماڈل ہائی سکول ماڈل ٹاؤن اور گورنمنٹ ہائی سکول وحدت کالونی لاہور میٹرک تک کے تعلیمی مراکز رہے۔
ایک بار ماڈل ہائی سکول میں ’’حساب‘‘ (MATH) کے مضمون میں فیل ہونے کے سبب میٹرک میں فیل ہو چکا تھا۔ فیل ہو کر، رزلٹ سن کر، گھر پہنچے تو والدہ سے فرمائش کی آج دو انڈے پراٹھوں سے ناشتہ کروں گا کہ اگلے سال سیکنڈری بورڈ کو شکست دینی ہے۔
کرنا خدا کا کیا ہوا، سکینڈری بورڈ لاہور کی اب تک کی معلوم تاریخ میں پہلی اور آخری بار اگلے سال حساب (MATH) لازمی مضمون نہ رہا کہ اس میں فیل ہوں تو تمام امتحان میں فیل۔۔۔!، حساب لازمی نہ ہونے کے سبب ہم نے 850 میں 788 نمبر لے لیے اور جب نمبر سنبھالے نہ گئے تو بڑے بھائی پروفیسر باقر زیدی نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کرانا چاہا مگر گورنمنٹ ہائی سکول وحدت کالونی کے اردو کے استاد محترم ممتاز الحق قدوسی صاحب نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے وائس پرنسپل پروفیسر مولانا علم الدین سالک کے نام رقعہ مجھے تھما دیا کہ ’’جاؤ اسلامیہ کالج میں داخل ہو جاؤ‘‘۔ رقعے میں تحریر تھا:مولاناے محترم! میں اپنے شاگردِ رشید، عزیزِ باتمیز ناصر زیدی سلمہ کو آپ کی سرپرستی میں دے رہا ہوں۔ یہ ایک روز آپ کا اور آپ کے کالج کا نام روشن کرے گا یقیناً۔۔۔ ان شاء اللہ۔۔۔!
اس رقعے کو اور مجھے مولانا علم الدین سالک نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کالج میں یونیفارم، کتابوں اور فیس کے علاوہ بھی جتنی مراعات ممکن تھیں دلوائیں۔ حتیٰ کہ کرکٹ کلب میں ہونے کے سبب بارہ آنے روز دودھ پینے کے لیے بھی ملے جو مَیں ’’عرب ہوٹل‘‘ سے ایک لمبے سے جستی گلاس میں لے کر غٹ غٹ کرکے پی جاتا۔۔۔ ’’بزمِ عروجِ ادب‘‘ کا سیکرٹری جنرل بھی مجھے بنا دیا گیا۔۔۔
’’مجلس علومِ اسلامیہ‘‘ کا سیکرٹری اور کالج یونین میں بھی اہم کارکن، کالج کی تمام سرگرمیاں، مشاعرے، مذاکرے، عرب ہوٹل میں شعرا و ادبا کے ساتھ نشست و برخاست، یہ میری بھرپور ادبی زندگی کی ابتدا تھی، جس کی انتہا بھی بڑے کروفر سے ہوئی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، راؤ ارشاد( اس زمانے میں راؤ ارشاد علی خاں بیتاب کلانوری( ذوالفقار احمد مرحوم (اس زمانے میں جمیل اعظمی) بیرسٹر صابر کیفی، مستنصر جاوید، الطاف احمد قریشی، شہزاد جالندھری (مرحوم)، وحید اطہر (مرحوم)، اشرف ندیم (مرحوم)، ثقلین جعفری مرحوم اور بھی آج کی ادبی دنیا کی کئی نامور شخصیات، ایک کلاس آگے یا اکثر کلاس فیلو تھے۔ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے میگزین ’’کریسنٹ‘‘ میں میرا پہلا بھرپور ادبی و تحقیقی مضمون مولانا الطاف حسین حالی کی شخصیت و شاعری پر ’’حالیِ جادوبیاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون نے میرے ایک ادبی پہلو یعنی ’’تحقیق و تنقید‘‘ کا رخ متعین کیا۔ یہ مضمون بہت آگے چل کر ’’کریسنٹ‘‘ ہی کے ’’حالی نمبر‘‘ میں پروفیسر خالد بزمی نے دوبارہ چھاپا۔۔۔ کالج کے پرنسپل کرنل محمد اسلم، فلاسفی کے پروفیسر تھے اور سخت گیر فوجی انداز کے منتظم و مہتمم تھے ،مگر وائس پرنسپل پروفیسر مولانا علم الدین سالک بااصول سخت گیر ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد شفیق بھی تھے، مجھ پر ان کی شفقت اس قدر زیادہ تھی کہ پروفیسر حضرات بھی بعض کاموں کے لیے میری اعانت طلب کرتے۔ ان کے ساتھ انگلی پکڑ کے لاہور کے گلی کوچوں، مقبروں، مزاروں، مرغزاروں، باغوں اور اہم تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے پیدل زمین کا گز بنا رہا۔ مولانا سالک کالج سے نکلتے تو پنجاب یونیورسٹی، انارکلی سے ہوتے ہوئے پیدل ہی چوبرجی اور اس سے بھی آگے ملتان روڈ پر تاریخی مقابر کی سیر کراتے اور پوری ہسٹری خصوصاً ’’تاریخِ لاہور‘‘ ازبر کراتے جاتے۔ مولانا لکھنے کے چور اور مُنہ زبانی گفتگو کے شہنشاہ تھے۔ بعض مضامین انھوں نے مجھے پورے کے پورے اِملا کرائے جو ’’نقوش‘‘ کے لاہور نمبر میں چھپے۔
یہ ڈکٹیشن لینے کا کام ان کے دوست، ہمدم، رفیق مولوی عبداللہ قریشی نے بھی زندگی بھر کیا۔ مولانا علم الدین سالک پر جس قدر کام ہونا چاہیے تھا، افسوس اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہو سکا، زندگی نے مہلت دی تویہ مجھ پر قرض ہے اور فرض ہے۔ مولانا علم الدین سالک، علم و فضل کا بیکراں سمندر تھے۔ چلتی پھرتی مجسم تاریخ تھے، پاک و ہند کی تاریخ کے حافظ تھے، فارسی زبان و ادب کے حافظ و خیام تھے۔ سعدی و طالب آملی تھے۔

Related posts

Leave a Comment