اوصاف شیخ … دمکتا رخ لیے جو کر و فر سے نکلا ہوں

دمکتا رخ لیے جو کر و فر سے نکلا ہوں
میں بچ کے معرکۂ خیر و شر سے نکلا ہوں

میں پھونک پھونک کے رکھتے ہوئے قدم گیا تھا
میں رقص کرتے ہوئے اس نگر سے نکلا ہوں

ہوں گرد باد کی صورت جو ارد گرد ترے
یہ جان لے تری گردِ سفر سے نکلا ہوں

وہ جس کے سائے میں تم نے دبا دیا تھا مجھے
میں آج پھر اسی بوڑھے شجر سے نکلا ہوں

میں تیرے ساتھ ازل سے نہیں ہوں سچ کہہ دوں
ترے سفر میں کسی رہگزر سے نکلا ہوں

میں کب سے گم ہوں مجھے کچھ پتہ نہیں ملتا
میں خود کو ڈھونڈنے اوصاف گھر سے نکلا ہوں

Related posts

Leave a Comment