میرا پاکستان
……
ایک متحرک اور فعال سیاست دان
……..
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہبازشریف کی سیاسی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ وہ ہر وقت کچھ کر گزرنے کی دُھن میں رہتے ہیں۔ اپنے ہر دور میں انھوں نے ایسے کام کیے جن سے پنجاب کے عوام کو براہِ راست فوائد حاصل ہوئے۔ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی ، پنجاب ایگریکلچر اینڈ میٹ کمپنی، لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی اور لاہور پارکنگ کمپنی کا قیام اُن کی گہری بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ایک میٹرو بس کے منصوبہ ہی کولے لیجیے، جناب عمران خان اور جناب پرویز الٰہی اِسے کیسے کیسے الٹے سیدھے نام دیتے رہے، عوام کو اس منصوبے کی بابت گم راہ کرنے کی اپنی سی کوششیں کرتے رہے، لیکن عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہ منصوبہ کتنا عوام دوست ہے، صبح سے رات گئے تک جو بسیں اپنے ٹریک پر چلتی نظر آتی ہیں، ہم نے تو ان میں سے کبھی کوئی ایسی بس نہیں دیکھی جو لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی نہ ہو۔ یہیں سے اندازہ لگا لیجیے کہ عوام اس سے کس قدر مستفیض ہو رہے ہیں۔ عوام کی طرف سے اس منصوبے کے کثیر استعمال نے ہی مخالفین کامنہ بند کر دیا۔ اور اِسے ”جنگلہ بس“ کا نام دینے والے واپس اپنے اپنے بنگلہ میں چلے گئے۔معمولی کرایہ کے عوض گجومتہ سے شاہدرہ اور شاہدرہ سے گجو متہ تک کا سفر حکومت کی طرف سے عوام کے لیے ایک بے بہا تحفہ سے ہرگز کم نہیں۔ ہم تو یہی دعا کرتے ہیں کہ یہ منصوبہ پورے شہر میں اُسی انداز میں جاری و ساری ہو جائے کہ جس کا اظہار جناب میاں محمد شہباز شریف کرتے رہے ہیں۔ لاہور کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی اسی نوعیت کے منصوبوں کا شروع کیا جانا ازحد ضروری ہے۔ اور ہاں یہ جو کبھی کبھی میٹرو ٹرین چلانے کی بات سامنے آ تی ہے، وہ بھی ایک شاندار منصوبہ ہو سکتا ہے۔ شہر کو صاف کرنے اور رکھنے کے لیے جاری منصوبے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ لاہور پارکنگ کمپنی کی کوششیں بھی دھیرے دھیرے سامنے آنا شروع ہو چکی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی بابت ہم نے ہمیشہ یہی کہا ہے کہ کام کی جو لگن اور جذبہ اُن میں ہے، وہ اُن کے رفقا میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اگر ان کے اردگرد موجود لوگوں ، وزرا، مشیران اور ممبرانِ اسمبلی میں سے ایک تہائی ہی اُن کی طبیعت کا پچاس فیصد اثر قبول کر لیں تو صوبہ پنجاب ہی کیا، پورا پاکستان اُس راستے پر چل پڑے جس کے خواب دیکھتے دیکھتے ہمارے بڑے بوڑھے گزر گئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے انتہائی متحرک اور فعال ساتھیوں میں ایک نمایاں شخصیت چوہدری ارشد جٹ ہیں۔ آپ ان سے مل کر دیکھ لیں، اُن سے ملنے کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، جب چاہیں،اُن کے کوپر روڈوالے آفس میں صبح سے رات گئے تک اُن سے ملا جا سکتا ہے۔ آنے جانے والوں کے لیے کسی روک ٹوک اور جانچ پڑتال کا چنداں اہتمام نہیں۔ عوام کی فلاح کے لیے اُن کے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی منصوبہ جاری رہتا ہے۔اپنے حلقہ میں عوام کو طبی سہولیات کی فراہمی پر مائل ہوئے تو چیچہ وطنی میں ڈائیلاسس سنٹرDialysis Center) (اور کارڈیک سنٹر (Cardiac Center)قائم کروا ڈالے۔ خبر یہ ہے کہ اوس پڑوس کے علاقوں سے جو لوگ گردوں اور دل کے امراض کے علاج کے لیے بہاول پور اور ملتان جایا کرتے تھے، اب چیچہ وطنی کا رُخ کرتے ہیں۔ طبی سہولیات میں اضافہ اور بہتری کے حوالہ سے چوہدری صاحب کے مزید منصوبے یقینا چیچہ وطنی کو صوبہ بھر میں ایک منفرد مقام عطا کریں گے۔
پھر یوں ہوا کہ چوہدری صاحب کے دن رات کسان کی فلاح کے لیے بائیوگیس پر صرف ہونے لگے۔ ہر وقت ایک ہی دھن کہ کسی طرح کم سے کم قیمت میں ایسے بائیوگیس پلانٹ تیار کیے جائیں جن سے کاشت کاری کے لیے ٹیوب ویل چلائے جا سکیں۔ سو دُھن کے پکے اس انسان نے پتو کی میں ایک ماڈل پلانٹ لگوایا اور قیمت۔۔ ملک میں لگائے جانے والے اِسی نوعیت کے دیگر پلانٹوں کے ایک چوتھائی سے بھی کم۔ پھر کیا تھا، کافی کچھ اِدھر اُدھر ہو گیا، کئی تیوریوں پر بل پڑگئے، کئی ستون ہلتے نظر پڑے۔پرائس کنٹرول کمیٹیوں اور مویشی منڈیوں کے معاملات میں بھی موصوف بہت نمایاں ہیں۔
ہم ہفتہ بھر کے ایک تربیتی کورس کی تکمیل کے بعد اتوار کی سہ پہر پاکستان پہنچے تو معلوم ہوا چوہدری صاحب کی سرپرستی میں ڈسٹرکٹ لائیوسٹاک آفیسر اور ان کے عملے نے اسلام پورہ، جوہر ٹاو¿ن، نواب ٹاو¿ن اور دیگر علاقوں میں گوشت کی دکانوں پر چھاپوں کے دوران تقریباً نصف ٹن مضرِ صحت گوشت قبضے میں لے لیا ہے اور اب اپنی نگرانی میں لاہور میٹ پروسیسنگ کمپلیکس کے انسینیریٹنگ یونٹ(Incinerating Unit) میں جلوا رہے ہیں۔ انھوں نے اس موقع پر عوام کو معیاری گوشت کی فراہمی کے لیے اپنے عزائم سے بھی آگاہ کیا۔ عوام خبردار رہیں کہ اس وقت بازار میں دستیاب گوشت کی صورت حال بڑی تشویش ناک ہے۔ بیمار جانوروں کے گوشت کا استعمال انسانوں میں کئی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ سلسلہ یہیں نہیں رُکتا کہ ہمارے ہاں مردار جانوروں کے گوشت کا کاروبار بھی اپنے عروج پر ہے۔ایسے میں چوہدری ارشد جٹ ایسے فعال سیاست دان کا اس میدان میں کود پڑنا یقینا خوش آئند ہے اور امید باندھی جا سکتی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے اس منصوبے میں کامیابی سے ہم کنار ہو گی ۔ لاہور میٹ پروسیسنگ کمپلیکس کا قیام بھی پنجاب حکومت کی طرف سے عوام کے لیے ایک ازحد کارآمد ہے جہاں ہر جانور کو ذبح کرنے سے پہلے اس کا انٹی مارٹم اور ذبح کے بعد پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ دونوں معائنوں کا مقصد گوشت کے معیار کو یقینی بنانا ہے۔ غیر معیاری گوشت کو جلا دیا جاتا ہے کہ اسے کھلے عام پھیکنا، دریا میں بہا دینا یا زمین میں دفن کرنا بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن لاہور کے قصاب ہیں کہ اپنے گھناونے مقاصد کی تکمیل کے لیے لاہور میٹ پروسیسنگ کمپلیکس سے گریز کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت لاہور شہر میں اس کمپلیکس کے علاوہ ذبح ہونے والے تمام جانوروں کا گوشت غیر قانونی ہے۔ لہٰذا عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کسی بھی قصاب کی دکان سے گوشت خریدتے ہوئے اس پر لاہور میٹ پروسیسنگ کمپلیکس کی مہر اور ٹیگ ضرور دیکھ لیں کہ معاملہ صحت اور حلال و حرام کا ہے اور اِس معاملے میں کوتاہی اپنی اور اپنے بچوں کی صحت اور دین سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ہم نے اتنی باتیں کر ڈالیں لیکن چوہدری ارشد جٹ کا تعارف کروانا بھول ہی گئے۔ تو صاحبو! جو کچھ ہم نے اوپر درج کر ڈالا ہے، اِس کے بعد بظاہر تو کسی تعارف کی ضرورت نہیں رہتی ۔ پھر بھی رسمِ دنیا نبھانے کی غرض سے بتائے دیتے ہیں کہ چوہدری ارشد جٹ چیچہ وطنی سے ممبر صوبائی اسمبلی ہیں، لائیو سٹاک اور ڈیری ڈیویلپمنٹ کے معاملات میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے خصوصی معاون ہیں، پیشے کے اعتبار سے کاشت کار ، تعلیم کی بات کی جائے تو وکیل ہیں اور دن رات اپنے کام سے لگے ہوئے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے مخلص اور محنتی افراد کی تعداد میں اضافہ فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزنامہ دن
۰۶ فروری ۲۰۱۴ء