پاکستانی عوامی تحریکیں … نوید صادق

میرا پاکستان

………..

پاکستانی عوامی تحریکیں

……………

دنیا بھر کی باتیں کر کے لوٹنا تو پاکستان ہوتا ہے تو پھرکیا فائدہ، اِدھر ااُدھر گھومنے اور اپنے قارئین کو خوار کرنے سے۔ سو آج ہم بات پاکستان سے شروع کریں گے اور پاکستان پر ہی ختم۔ عوامی تحریکیں وہ تحریکیں ہوتی ہیں جو عوام کی طرف سے شروع ہوتی ہیں، ان کے نمائندے کہیں یا لیڈر عام عوام ہوتے ہیں، سیدھے سادوں کے کٹھ سے اُٹھنے والے تھوڑے بہت ٹیڑھے میڑھے لوگ، تھوڑی بہتر سوجھ بوجھ رکھنے والے، تھوڑے زیرک۔ یہاں بس کرتے ہیں کہ بات بڑھتے بڑھتے کہیں کی کہیں جا پہنچے گی اور پھر اُس کو سمیٹنا ہمارے بس میں تو خیر کیا رہے گا، خان صاحب بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔ ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ خان صاحب کا ذکر بات بے بات کیوں بیچ میں آ جاتا ہے۔ ہم نے بہت غور کیا تو ایک آواز آئی کہ بھیا تم خود ایک زمانے میں ان سے بہت متاثر تھے، انھیں ہیرو بنائے پھرتے تھے، بہت خوش تھے کہ عوام کی بات کرنے والا کوئی ہے، کوئی ہے جو ہمارے لیے تڑپ رہا ہے، ہماری حالتِ زار پر کڑھ رہا ہے۔جب امیدوں کا بھانڈا پھوٹا تو پھر دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں کہ یا تو چپ چاپ ایک طرف ہو کر بیٹھ رہتے اور وقت بے وقت روتے دھوتے رہتے اور دوسری صورت وہی ہے جو ہم پر غالب ہے، ہم اپنے ماضی کے اس ہیرو کو اٹھتے بیٹھتے برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ بل کہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اپنے سپنوں کے اجڑے تاج محل پر آنسو بہانے کی بجائے اس کے اُن معماروں کو کوسنے دیتے رہتے ہیں کہ جنھوں نے اس کی تعمیر کا آغاز کرنے سے پیش تر ہی اسے ڈھانے کی تراکیب آزمانا شروع کر دیں۔ خیر جو بھی ہو، ہم معذرت چاہتے ہیں، اپنے آپ سے بھی اور اپنے اس ہیرو سے بھی۔
پاکستان میں سب سے بڑی عوامی تحریک تو وہی مسلم لیگی تحریک تھی جو پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی نحیف و نزار ہو کر دم توڑ گئی کہ ہمیں ایک دم آپا دھاپی پڑ گئی، ایک دوسرے کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہم۔۔۔ ہم نئے نئے پاکستانی سمجھ ہی نہ پائے کہ ابھی تو سفر کا آغاز ہے، انجام تو کہیں بہت آگے ہے۔ سو ہم نے قیامِ پاکستان کو اپنے اس تاریخی سفر کا آخیر جانا اور دنیا و مافیہا سے بے خبراپنے اپنے مفادات کے چکر میں پڑ گئے، تیرے میرے کی گردان ہمیں 2014ءمیں لے آئی، آج 2014ءمیں ہم وہاں کھڑے ہیں کہ دوسروں سے تو خیر کیا آنکھ ملائیں گے، ہم خود اپنا سامنا نہیں کر سکتے۔تعلیم کا معاملہ لیں تو وہاں نری شرمندگی، اخلاقیات کا باب کھولیں تو خالی نعرے بازی اور دیوانے کی بڑ، ترقی وغیرہ محض کاغذوں تک محدود۔پچھلے دنوں یوں ہی بیٹھے بیٹھے خیال آیا تو مختلف ممالک کے کرنسی ریٹ چیک کرنا شروع کر دیے۔ جوں جوں آگے بڑھے، توں توں بلڈ پریشر نیچے آتا گیا کہ کوئی ملک ایسا نہ ملا جس سے پاکستان کی کرنسی بہتر حالت میں ہو۔ ہم جن ممالک کو بہت گیا گزرا جانتے تھے وہ ہم سے کہیں بہتر نظر آئے۔خیر بات ہو رہی تھی عوامی تحاریک کی تو پاکستان میں برپا ہونے والی ایک بڑی عوامی تحریک پاکستان پیپلز پارٹی تھی، یہ وہ عوامی تحریک تھی جس کا آغاز ایک جاگیردار نے کیا، لیکن اُس کے نعرے عوام کے لیے تھے۔ عوام نے اسے اپنا جان کر دل و جان نچھاور کیے۔ بڑوں سے سنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو صحیح معنوں میں عوام کے لیڈر تھے، لیکن آج تک بڑوں کی اس بات سے اتفاق کرتے نہیں بنی کہ آخر کیسے۔ پھر ہم نے بھٹو صاحب کے جاں نشینوں کو دیکھا تو یقین ہو چلا کہ بڑے شاید جذبات کی رو میں بہہ گئے تھے، ورنہ جو ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے پاو رتی ہی بہتر حالات ہوں گے، ورنہ کوئی تو ایسی تبدیلی آتی کہ جس کے نشان ہم تک پہنچتے۔بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری(بھٹو) اور اب بلاول زرداری بھٹو، کیا عوام۔۔۔۔ اور کیا عوامی انقلاب کے نعرے۔پاکستان مسلم لیگ متوازی جماعت کے طور پر ساتھ ساتھ چلتی رہی، لیکن اس میں بھی راج بڑوں کا ہی رہا۔ خاندانوں کی حاکمیت رہی۔ جنابِ عمران خان نے عوام کا نعرہ لگایا، انصاف انصاف چلائے تو عوام اُدھر مائل ہوئے کہ شاید مسیحا آ گیا لیکن اُن کے طرزِ عمل اور اُن کے ِاردگرد نظر آنے والے چہروں نے بھی مایوسی سے ہم کنار کیا۔ اب بھارت میں عام آدمی کی پارٹی کا نعرہ لگا تو دنیا نے سوچا، دنیا کو گولی ماریے کہ ہمیں کم از کم آج کے دن صرف پاکستان کی بات کرنا ہے، تو بھارت کی دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی عام آدمی کی جماعت کی تشکیل کے لیے آواز اٹھی ہے۔ جنابِ راشد سلہری اس کے روحِ رواں ہیں۔ اب انھیں اس نوزائیدہ جماعت کا سربراہ کہیے، سرپرست کہیے، صدر کہیے کہ چیئر مین۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آواز محض نقالی میں بلند ہوئی ہے اور نقالی بھی کس کی ، بھارت کی، سو اِس سے کیا امید باندھی جا سکتی ہے۔لگے ہاتھوں یہاں اُن سیاسی جماعتوں کا ذکرِ خیر بھی ہو جانا چاہیے کہ لفظ ”عوام“ یا ”عوامی“ جن کے نام کا حصہ ہے لیکن اس سے بھی کیا حاصل ہو گا کہ عوام اور عام کبھی ان کی ترجیحات کا حصہ نہیں رہے اور نہ ہی آئندہ اس کی کوئی توقع کی جا سکتی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، متحدہ قومی موومنٹ کہ کسی زمانہ میں مہاجر قومی موومنٹ کہلایا کرتی تھی، ایک عام آدمی سے شروع ہوئی اور اس میں اکثریت عوام ہی کی رہی لیکن اس عوامی اور عامی جماعت نے وہ وہ کرتب دکھائے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔سیاست کو ایک نیا روپ دینے میں اس جماعت کو دوسروں پر خصوصی فوقیت حاصل رہی ہے۔اب آپ جو چاہیں سمجھ لیں۔
ہم نے آج جو لکھا، سراسر مایوسی کی ترویج پر مبنی نظر آتا ہے، لیکن ہم کریں تو کیا کریں کہ ہر گزرتا دن ہمیں مزید پیچھے لے جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے، جن قوموں نے، جن ملکوں نے ترقی کی، اُن کے وطیرے ہمارے ایسے تو ہرگز نہیں تھے۔ سو راوی چپ چاپ کمبل اوڑھ کر سو جانے کو ترجیح دینے ہی میں عافیت جانتا ہے کہ اللہ اللہ خیر صلا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۰۹ فروری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment