پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے! … نوید صادق

میرا پاکستان
……

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے!
……….

کہتے ہیں،کسی سیاست دان کے کامیاب سیاست دان بننے کے لیے اُس میں دو صلاحیتوں کا ہونا ازحد ضروری ہے۔اول مسائل کو دیکھنے، سمجھنے کی صلاحیت اور دوم دوسرے سیاست دانوں کو اپنی مدد پر قایل و مایل کرنا۔ہم پہلی غلطی تو یہیں کر بیٹھتے ہیں کہ ایک غلط نعرے، ایک بے جا دعوے پر آنکھیں میچے اعتماد کا اظہار کر بیٹھتے ہیں۔ سیاست دان نعرہ لگاتا ہے کہ وہ ہمارے مسائل سے مکمل آگاہی رکھتا ہے، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن مسائل سے آگاہی کے اعلان کے بعد اُس کا یہ کہہ دینا کہ وہ ہمارے مسائل کو حل کر دے گا ، سو میں سے کوئی ایک ہو تا ہے جو کہتا ہے کہ وہ اِن مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گا۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اُس کی جیب میں کیا کوئی اللہ دین کا چراغ ہے کہ جوں ہی ہم اسے منتخب کر کے اُس کی مقصود و مطلوب کرسی پر بٹھا دیں گے، وہ چراغ اپنے کھیسے سے نکالے گا، ذرا آہستگی سے اِسے رگڑے گا کہ کہیں گِھس ہی نہ جائے، ابھی تو آئندہ کئی برس اس کی ضرورت رہے گی، ایک ہٹا کٹا جن ’ حکم میرے آقا‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نمودار ہو گا، پھر موصوف اُسے حکم جاری کریں گے :جاؤ امریکی ڈرون حملے رُکوا کر کر آؤ، اور جن پُھر سے اڑ جائے گا ، ٹی وی پر ایک خبر چلے گی: امریکہ نے 150ڈرون جہازوں کی تباہی پر آیندہ پاکستان پر ڈرون حملوں سے توبہ کر لی ہے نیز یہ کہ امریکہ اپنے گذشتہ افعال و اعمال پر شرمندہ ہے۔ اگر یہ سب اتنا آسان اور دل چسپ ہوتا تو جیسے بھی بن پڑتی ہم کہیں سے اُس طلسمی چراغ کو ڈھونڈ لاتے اور اپنے حلقے کے منتخب اسمبلی ممبر سے کہتے کہ جناب یہ لیجیے چراغ اور ہمارے محلے کی نالیاں پختہ کروا دیجیے۔تو بات یوں ہے کہ اچھا اور کامیاب سیاست دان محض وہ ہے جو یہ دعوی کرے کہ بھائیو، مجھے ووٹ دو، میں آپ کے مسائل سمجھتا ہوں، میں اسمبلی میں دوسرے ممبران کو قائل کروں گا کہ ہمارے مسائل واقعی توجہ طلب اور حل طلب ہیں ۔ یہی نہیں بل کہ اس میں یہ گُن بھی ہونا چاہئیں کہ وہ دوسروں کو قایل کرسکے کہ وہ اس کے ساتھ مل کر ان مسائل کو حل کریں گے۔اور ہم میں بھی اس سمجھ بوجھ کا ہونا اشد ضروری ہے کہ جو بات سٹیج پر کھڑا شخص کہہ رہا ہے، درست ہے یا محض ایک بڑھک۔ لیکن یاد رہے کہ جو شخص خود اپنے آپ کو قایل نہ کر سکے وہ دوسروں کو کیا قائل کرے گا۔ ہم لوگ قائل ہو کر ووٹ نہیں دیتے، ہم تو مائل ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں۔ قائل ہو کر مائل ہونا تو ہم نے سیکھا ہی نہیں۔ یاد آیا برسوں پہلے ایک معروف سیاست دان نے بہاول پور میں ایک جلسہ میں خطاب کے دوران کہا کہ اگر آپ لوگ مجھے ووٹ دیں تو میں۔۔۔ تو میں۔۔۔ بہاول پور ریلوے سٹیشن سے بغدادالجدید ریلوے سٹیشن تک سڑک کے دونوں طرف امریکی گھاس لگوا دوں گا۔ اس اعلان پر سامنے پنڈال میں بیٹھے ہم جیسے کم عقلوں نے تالیاں پیٹنا شروع کر دیں۔ہم نے مقدور بھر اپنا سر پیٹا اور اُٹھ آئے لیکن الیکشن کے دن وہ صاحب بھاری اکثریت سے جیت گئے۔
ہمارے ہاں عجیب معاملہ کچھ یوں ہے کہ پہلے تو ہم یہی سنتے رہے کہ عقل پڑھائی سے مشروط نہیں، جس کے نتیجے میں انگوٹھا لگانے والے بھی وزارتیں سنبھالے رہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو آئین کی کاپی سامنے رکھے اپنے گاو¿ں کے ڈاکیے کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کب وہ گاو¿ں بھر کی ڈاک بانٹ کر آئے گا اور کب انھیں آئین کی کوئی مطلوبہ شق پڑھ کر، لغت سے دیکھ بھال کر، صاف ستھری مگر انتہائی سلیس زبان میں ترجمہ کر کے اُن کے گوش گذار کرے گا۔خیر حالات و واقعات سدا ایک سے نہیں رہتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکیے بھی بدل گئے۔انگریزی میں لکھا پتہ کسی دوسرے سے پڑھوا کر گھروں میں خط پھینکنے والے کیا پڑھتے اور کیا سمجھاتے۔تو ان گھاگ قسم کے سیاست دانوں کے لیے بڑی مشکل پیدا ہو گئی کہ ڈاکیے کی جگہ گاؤں کے کسی پڑھے لکھے نوجوان سے آئین یا کوئی نوٹس پڑھوانے میں گھر کی بات باہر جانے کا خدشہ تھا۔ ابھی یہ لوگ اسی شش و پنج میں تھے کہ کیا کریں، کیا نہ کریں، کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بی اے کی پابندی لگ گئی۔ کچھ دن تو یہ بات ہضم نہ ہوئی کہ ایک دم کچھ چہرے پسِ پردہ چلے جانے کا خدشہ تھا لیکن وقت سب سے بڑا مرہم ہے، انھی خان دانوں میں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو سامنے لایا جانے لگا۔لیکن بی اے بھی کیا ہے۔ گھر کے بچے نے بی اے تو کر لیا اور انتخابات میں جیت بھی گیا لیکن اب اسے وزیر بنوانا ہے، وزارت بھی پٹرولیم کی ہو، وہی ہوا، جو ڈوریاں ہلانے والوں نے مناسب سمجھا، برخوردار کو وزیر پٹرولیم لگا دیا گیا۔ پٹرول کی قیمت کا تخمینہ گدھے کے چارہ کھانے اور بعدازاں کام کی مقدارسے لگایا گیا، سو جہاں تھے، گھوم پھر کر وہیں آگئے، یہاں صورتِ حال کی درست عکاسی کے لیے اپنی مادری زبان پنجابی سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، لیکن پنجابی زبان کے محاورے شاید کچھ احباب کی صحت پر گراں گزریں کہ یہاں لگی لپٹی رکھے بغیر دو ٹوک بات کہنے اور سننے کا رواج ہی نہیں رہا ۔ویسے آپس کی بات ہے، کسی سے کہنا نہیں، ایک دفعہ ہم نے ایک چٹے ان پڑھ لیکن ماضی کے گھاگ سیاست دان کو اپنے بیٹے کے ترلے کرتے دیکھا کہ وہ جیسے بھی ہو بس بی اے کر لے۔ اُدھر برخوردار تھے کہ گذشتہ تین برس سے میٹرک کے نصاب کو ذہن پر نقش کرنے میں لگے تھے اور ہر بار ابا جی سے یہی کہتے تھے کہ ذرا میٹرک پکا ہو لے تو آگے کا نام لوں ۔ باپ کے بے حد اصرار پر برخوردار نے زچ ہو کر کہہ دیا : اچھا ابا جی! تسی ضد کردے او تو فیر میں کل شامی بی اے وی کری آواں گا۔ اللہ جانے برخوردار بی اے کو کیا سمجھ رہے تھے لیکن فرماں بردار بچہ تھا، ابے کا دل رکھ لیا۔اور ابا بھی شانت کہ جیسے سارے مسئلوں کا واحد حل بی اے پاس کرنا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بندر بانٹ تھی، بندر بانٹ ہے اور شاید ہمارا مستقبل بھی اسی کی نذر ہو جائے کہ جب تک شعور کا دروازہ ہم پر وا نہیں ہوتا، ہم اسی ذلت و ناکامی کا شکار رہیں گے۔کاش ہم قائل ہو کر مائل ہونا اور قائل کر کے مائل کرنا سیکھ لیں۔ لگے ہاتھوں باقی صدیقی کا ایک خوب صورت شعر کہ کچھ کچھ صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے:

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے
اب فقط ہاتھ اُٹھا دیتے ہیں

”سوچتے تھے“ کا ذکر ہم نے بزرگوں سے سُن رکھا ہے اور ہمیں اپنے بزرگ بہت عزیز بھی ہیں، لیکن یہ ”ہاتھ اٹھا دیتے ہیں“ والی صورتِ حال بڑی اندوہ ناک ہے کہ یہ تو غلاموں کا وطیرہ ہوا کرتا ہے اور ہم اس سچائی کو تسلیم کرنے سے تاحال گریزاں ہیں۔کیوں؟ یہ ہمیں کسی فرصت کے پل اکیلے بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ اجتماعی ضمیر انفرادی ضمیر سے تشکیل پاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۳ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment