عشق میں بزرگوں سے رائے کون لیتا ہے! … نوید صادق

میرا پاکستان
……

عشق میں بزرگوں سے رائے کون لیتا ہے!
……….

چلیے بات ختم۔ وہ جو عرصہ سے چیخ چلا رہے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کیے جانا چاہئیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف طاقت کا استعمال درست نہیں ہے۔ ڈرون حملے بند کروائے جائیں۔ حکومت تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہے۔ طالبان ہمارے بھائی ہیں۔ جناب منور حسن کے تو خیر کیا کہنے ہیں کہ اُن کے بیانات کی وضاحت بعدازاں جماعتِ اسلامی کے معززین کو کرنا پڑتی ہے لیکن خان صاحب تو سنبھالے نہیں سنبھلتے ہیں، اپنے چہیتے طالبان کے غم میں اُن کی صحت بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ اب جب ایک زیرک صحافی کے سوال پر کہ مذاکرات کا معاملہ جناب منور حسن، علامہ سمیع الحق اور خان صاحب کے سپرد کیوں نہیں کر دیا جاتا، وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے تینوں بزرگوں سے طالبان سے مذاکرات کرنے کی درخواست کی تو غبارہ خالی۔۔۔۔ یہی ہونا تھا، کچھ عرصہ قبل ہم نے بھی اپنے ایک کالم میں انھی خیالات کا اظہار کیا تھا کہ جو لوگ طالبان کی حمایت میں دُبلے ہوئے جارہے ہیں، انھی کو مذاکرات کا کہا جائے، پھر دیکھئے کون کہاں کھڑا نظر آتا ہے۔ تو دوستو! سب سے پہلے تو تحریکِ طالبان پاکستان کے سب سے بڑے خیر خواہ جناب عمران خان صاحب پھٹ پڑے کہ میں ہی کیوں۔ حکومت خود کیوں نہیں کرتی یہ مذاکرات وغیرہ۔ ساتھ ہی انھوں نے حکومت سے اے پی سی بلانے کا مطالبہ کر ڈالا ہے۔ یہ اے پی سی تو یوں سمجھیں کہ ٹرک کی ایک سرخ بتی ہے۔خان صاحب کہتے ہیں کہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں ہیں، اس لیے ایسی کسی حماقت کی جسارت نہیں کریں گے۔حالاں کہ کچھ عرصہ قبل خان صاحب اور ان کے پارٹی کے ایک ٹمٹماتے چشم و چراغ جناب پرویز خٹک نے اعلان کیا تھا کہ اگر وفاقی حکومت نے تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات میں مزید غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو ان کی صوبائی حکومت خود ہی طالبان سے مذاکرات کر لے گی۔ اُس دن تو ہم بھی سکتے میں آ گئے تھے لیکن سکتے کے اختتام پر تھوڑی دیر کو جرات و استقامت کی اس قابلِ تقلید مثال سے متاثر ہو کر اپنے اہلِ خانہ سے کہا تھا کہ اب دونوں خان صاحبان کا پٹھان خون جوش میں آ گیا ہے، اب یہ کچھ کر کے ہی دم لیں گے۔پھر کتنے ہی دن ہم دفتر سے گھر لوٹتے ہی خبرنامہ دیکھتے کہ شاید خان صاحب نے اپنے دعوے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کر دیا ہو لیکن مسلسل مایوسی اورپھر جنابِ نواز شریف نے اعلان فرما دیا اور خان صاحب اچھل پڑے۔ خیبر پختون خواہ کے لوگ ہمیشہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی صورت رہے ہیں۔ جب ہم طالب علم تھے تو اساتذہ ہمیں اُس وقت کے صوبہ سرحد اور حال کے خیبرپختون خواہ کی تاریخ پڑھاتے ہوئے بتایا کرتے تھے کہ صوبہ سرحد میں پاکستان کو سرحدوں پر فوج تعینات کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ ان سرحدوں پر حملہ آوروں کے لیے ہمارے پٹھان بھائی ہی بہت ہیں۔ کاش خان صاحب نے پٹھان ہونے کا دعوی کرتے وقت پٹھانوں کی زریں تاریخ پر بھی ایک نظر ڈال لی ہوتی۔ لگے ہاتھوں اپنے ان پٹھان بھائیوں کو سلام جو امن لشکر بنا کر طالبان سے جنگ میں مصروف ہیں۔اپنے ملک میں، اپنے ہی صوبے میں ایک سڑک بند کر دینا بہت آسان ہے لیکن گولیاں برساتے طالبان سے بات چیت ذرا ادق معاملہ ہے۔اب کھلا کہ تحریکِ طالبان پاکستان سے مذاکرات ،مذاکرات کی پکار محض سیاست چمکانے کا ایک راستا ہے، شاید اب یہ ”ہے“ تھا“ میں بدل جائے۔ اللہ کرے ہمارا یہ گمان درست ثابت ہو۔ آمین!
تحریکِ طالبان پاکستان نے ملا فضل اللہ کے امیر بننے کے بعد سے بربریت کا ایک نیا باب شروع کر رکھا ہے۔صرف خیبر پختون خواہ ہی کو لے لیں تو وہاں حالات شدید ابتری کا شکار ہیں۔ جناب مشتاق احمد کی شہادت ، جناب امیر مقام پر حملہ، تبلیغی مرکز پر دھماکہ۔۔۔ یہ پرانے نہیں پچھلے دو دن کے واقعات ہیں۔ دوسری طرف کراچی میں بھی طالبان نے اپنی کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔جمعیتِ علمائے اسلام (سمیع الحق) کے مفتی عثمان یار اور ان کے ساتھیوں کی شہادت، ایکسپریس نیوز کے تین کارکنان کی شہادت تازہ ترین واقعات ہیں۔ ایکسپریس نیوز کے کارکنان پر حملہ کی ذمہ داری طالبان کے ترجمان نے قبول بھی کر لی ہے اور اس وقت جناب منور حسین ان لوگوں کی شہادت کی مذمت میں حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
جنابِ چوہدری نثار علی نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو لوگ مذاکرات کرنا چاہیں گے، اُن سے مذاکرات ہوں گے، لیکن گولی کا جواب گولی سے دیا جائے گا۔ اس کے بعد وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف نے سوات کے دورہ کے دوران وہاں فوجی چھاونی بنانے کا اعلان کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر حملے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ جناب بلاول بھٹو زرداری تو یوں بھی طالبان کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے ذمہ داران بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں پوری قوم جناب عمران خان، جناب منور حسن، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ اب یہ بزرگ کیا ضروری اور کیا غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔ ہماری وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے درخواست ہے کہ ان بزرگوں کی سنی ان سنی کرتے ہوئے تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف کھلم کھلا اعلانِ جنگ کریں۔ یوں بھی بقول شاد عارفی:

مشورہ ضروری ہے ہر طرح، مگر یارو!
عشق میں بزرگوں سے رائے کون لیتا ہے


تو اس جنگ کو پاکستانیوں سے عشق کی وجہ قرار دیتے ہوئے حتمی شکل دینے کے لیے ان بزرگوں کی رائے کچھ ایسی بھی ضروری نہیں کہ اسے مزید موخر کیا جائے۔ عوام کی منتخب حکومت ہونے کے ناتے پاکستان مسلم لیگ (ن) پر پاکستانیوں کی حفاظت فرض ہے۔ اور اب وہ حالات آن پہنچے ہیں کہ شدید جوابی کاروائی کے سوا چارہ نہیں۔پاکستان کے عوام ہر مشکل وقت میں اپنی بہادر افواج کی طرف دیکھتی ہیں، اور ہمیں یقین ہے کہ اس بار بھی ہماری افواج موجودہ منتخب حکومت سے مشاورت کے بعد ہمارے تحفظ کا سامان کریں گی۔ انشاءاللہ!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روزنامہ دن

۲۰ جنوری ۲۰۱۴ء

Related posts

Leave a Comment