علی حسین عابدی ۔۔۔ دو غزلیں

روح کو جِسم سے انجان نہ ہونے دینا
دِل کی بستی کبھی ویران نہ ہونے دینا

اپنی اولاد کو لاچار سمجھ کر اْن کی
خواہشوں کو کبھی قربان نہ ہونے دینا

خوب تحقیق سے کہنا غمِ ہستی پہ غزل
اپنے اشعار کو بے جان نہ ہونے دینا

وحدتِ عشق بھی ہے وحدتِ خالق کی مثال
عشق میں شرک کا امکان نہ ہونے دینا

ذات میں کشف و کرامات سمو لو لیکن
دیکھنے والوں کو حیران نہ ہونے دینا

عابدی دہر میں رہنا تو مسافر کی طرح
مستقل ربط کا امکان نہ ہونے دینا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئنے خواب دیکھ لیتے ہیں
غم کے ابواب دیکھ لیتے ہیں

لوگ آنکھوں میں وسعتیں رکھ کر
صرف تالاب دیکھ لیتے ہیں

مدتیں ہو گئیں خوشی دیکھے
محفلِ ناب دیکھ لیتے ہیں

ہم کبھی اُس سے پھر نہیں ملتے
جس کے القاب دیکھ لیتے ہیں

خوں رُلاتی ہے زندگی کی کتاب
آخری باب دیکھ لیتے ہیں

عابدی لوگ بے وفا کیوں ہیں
اُن کے انساب دیکھ لیتے ہیں

Related posts

Leave a Comment