امجد بابر ۔۔۔ نہ ہفت رنگ نہ گرد و غبار باقی ہے

نہ ہفت رنگ نہ گرد و غبار باقی ہے
کسی ذریعے سے اپنا شمار باقی ہے

یہ ٹوٹ پھوٹ محبت کی راکھ لفظوں میں
درونِ خانہ نظر میں فشار باقی ہے

جلایا مجھ کو چراغوں کے درمیان کہیں
کسی رقیب کا مجھ پر اُدھار باقی ہے

میں ہار ماننے والوں کو بھول جاتا ہوں
یہ دل کی جیت ہے جس کا خمار باقی ہے

یوں آنکھیں بند کیے سو بھی تو نہیں سکتا
جو کر رہا ہے مجھے پھر شکار باقی ہے

رہے گا مجھ پہ یونہی سلسلہ عنایت کا
کسی نگاہ کا اب تک حصار باقی ہے

علاقہ غیر تو دشمن کا ہو چکا بابر
جو گروی رکھا ہے اپنا دیار باقی ہے

Related posts

Leave a Comment