امجد بابر ۔۔۔ نہ ہفت رنگ نہ گرد و غبار باقی ہے

نہ ہفت رنگ نہ گرد و غبار باقی ہے کسی ذریعے سے اپنا شمار باقی ہے یہ ٹوٹ پھوٹ محبت کی راکھ لفظوں میں درونِ خانہ نظر میں فشار باقی ہے جلایا مجھ کو چراغوں کے درمیان کہیں کسی رقیب کا مجھ پر اُدھار باقی ہے میں ہار ماننے والوں کو بھول جاتا ہوں یہ دل کی جیت ہے جس کا خمار باقی ہے یوں آنکھیں بند کیے سو بھی تو نہیں سکتا جو کر رہا ہے مجھے پھر شکار باقی ہے رہے گا مجھ پہ یونہی سلسلہ عنایت کا…

Read More

امجد بابر ۔۔۔ رشتوں کی لوٹ سیل

رشتوں کی لوٹ سیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رشتے اب کاغذی تعلق کی ردی میں مفت ملتے ہیں رشتے جو کبھی خون کی طرح بہتے تھے اس وقت شریانوں میں کلاٹ دھبوں کی نیلی دیواریں ہیں رشتے افسوس اور بین مل کر موت کی فتح کا اعلان آنسو بہاتے ہوئے بے چارگی کے موسم میں کرتے ہیں دو چار دنوں کے بعد سب کچھ سوکھ جاتا ہے اب رشتوں کی سیل دکھاوے کی مارکیٹ میں سارا سال جاری رہتی ہے ہم رشتوں کی اذیت کے زخموں کی مرہم پٹی کرتے کرتے کبھی تھک…

Read More

امجد بابر ۔۔۔ شعر سے مسکرانے لگتا ہوں

شعر سے مسکرانے لگتا ہوں رات کو دن بنانے لگتا ہوں نیند سے اک یہی شکایت ہے خود کو میں پھر جگانے لگتا ہوں مجھ سے ہمزاد بھی نہیں ملتا میں کہاں آنے جانے لگتا ہوں عشق بھی قیمتی خزانہ ہے دوسروں سے چھپانے لگتا ہوں جیب خالی اگر ہو دولت سے دل کا دریا بہانے لگتا ہوں مجھ کو آسان کیوں سمجھتے ہو مشکلوں سے ٹھکانے لگتا ہوں بھول جاتا ہوں اب تجھے اکثر تیرے جیسا زمانے لگتا ہوں

Read More

امجد بابر ۔۔۔ الفاظ کے منتر (نثری نظم)

الفاظ کے منتر ………….. دیکھتے دیکھتے بستر پر سانپ بن جاتا ہے درخت پر بیٹھا طوطا غائب ہو جاتا ہے خواب میں لڑکی کے بال جل جاتے ہیں آسمان سے پتھروں کی بارش ہونے لگتی ہے زمین وجد میں گنگنانے لگتی ہے دیکھتے دیکھتے ہاتھ لمبے ہو جاتے ہیں آنکھیں نکتوں میں دھنس جاتی ہیں لفظ رنگوں کے برش سے چپک جاتے ہیں گھر دیواروں کے تکلف سے بھر جاتے ہیں دیکھتے دیکھتے خواب کے معنی نکل آتے ہیں جگنوئوں سے اندھیرے ٹپکتے ہیں دریا سے ریت کی بدبو آتی…

Read More