امر مہکی ۔۔۔ ایسا بھی کیا گلہ کہ وہ ڈھب سے نہیں مِلے

ایسا بھی کیا گلہ کہ وہ ڈھب سے نہیں مِلے
شاید کہ ہم ہی دل کی طلب سے نہیں مِلے

مِل کر جدا ہوئے ابھی لمحہ نہیں ہوا
اور ایسا لگ رہا ہے کہ کب سے نہیں مِلے

آنکھوں نے اِک نظر میں ترا حُسن پی لیا
لب دیکھتے ہی رہ گئے لب سے نہیں مِلے

کچھ دوستوں سے تیری وجہ سے ہے دوستی
کچھ لوگ جن سے تیرے سبب سے نہیں مِلے

مِلناتھا ہم نے جس سے اُسے مِل لیا امر
لوگوں کا اعتراض کہ سب سے نہیں مِلے

Related posts

Leave a Comment