اک حشر کا سماں تھا ، کنارے فرات کے
ہر شخص نوحہ خواں تھا ، کنارے فرات کے
اک ضد لگی ہوئی تھی ،کہ بہنا ہے ساتھ ساتھ
دریائے خوں رواں تھا ، کنارے فرات کے
خنجر کا ، خوں کا ، خاک کا ، پانی کا ، پیاس کا
ہر شے کا امتحاں تھا ، کنارے فرات کے
گنتی کے جانثار تھے ، پر جانثار تھے
انبوہِ دشمناں تھا ، کنارے فرات کے
آنکھوں سے دیکھ کر بھی زمیں پر گرا نہیں
یہ کیسا آسماں تھا ، کنارے فرات کے