اکرم ناصر ۔۔۔ تحریک نفاذ اردو کے سلسلہ میں لکھی گئی نظم

تحریک نفاذ اردو کے سلسلہ میں لکھی گئی نظم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فصاحت کے ، بلاغت کے ، جو موتی رول سکتا ہو مرا محبوب ایسا ہو ، جو اردو بول سکتا ہو مرا محبوب ایسا ہو ، جو اردو بول سکتا ہو جو کر سکتا ہو باتیں استعاروں اور کنایوں میں جو رمزوں اور تشبیہوں کی گرہیں کھول سکتا ہو مرا محبوب ایسا ہو، جو اردو بول سکتا ہو جسے معلوم ہو،کیا ، کب ،کہاں، ہے کس طرح کہنا جو اپنی بات کو کرنے سے پہلے، تول سکتا ہو مرا محبوب…

Read More

اکرم ناصر ۔۔۔ حقیقت اور ہوتی ہے ،فسانہ اور ہوتا ہے

حقیقت اور ہوتی ہے ،فسانہ اور ہوتا ہے دلوں میں پھول کھلنے کا زمانہ اور ہوتا ہے وہ کہتا ہے،کہ پتھر کا زمانہ لوٹ آئے گا سمجھتا ہے ،کہ پتھر کا زمانہ اور ہوتا ہے میں اس کی بات کو ، بس بات کی حد تک سمجھتا تھا سمجھتا تھا ، بچھڑنے کا بہانہ اور ہوتا ہے وہ جس سے بات کرتا ہے، حقیقت میں نہیں کرتا حقیقت میں نہیں کرتا ، نشانہ اور ہوتا ہے یہی ہے فرق کٹیا اور محل کے رہنے والوں میں ہمارا اور ان کا…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ اکرم ناصر

ہم خدا کو ہی خدا کہتے ہیں آپ کو اس کی عطا کہتے ہیں ہے وہی آپ کا جھوٹا پانی سب جسے آبِ بقا کہتے ہیں ان کی چوکھٹ کو جو چھو کر آئے ہم اسے باد صبا کہتے ہیں زہر آلود ہوا کرتی تھی شہر کی آب و ہوا کہتے ہیں لوگ کہہ دیتے ہیں خوشبو اور ہم تیرے کوچے کی ہوا کہتے ہیں کوئی لوٹا نہیں در سے خالی میں نہیں سارے گدا کہتے ہیں آپ ہی تو ہیں مجسم قرآں جو یہ کہتے ہیں بجا کہتے ہیں…

Read More

نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ اکرم ناصر

ہو مجھ کو عطا اذنِ ملاقات نبی جی کرنا ہے مجھے آپ سے اک بات نبی جی رہتا ہوں شب و روز میں اک خوف کی زد میں دھڑکا سا لگا رہتا ہے دن رات نبی جی چھٹتے ہی نہیں دل سے مرے درد کے بادل رکتی ہی نہیں آنکھ کی برسات نبی جی کب تک ہمیں پسنا ہے یونہی غیر کے ہاتھوں کب تک نہیں بدلیں گے یہ حالات نبی جی چالاک بہت ہیں تری امت کے یہ دشمن کر جائیں نہ امت سے کوئی ہاتھ نبی جی

Read More

اکرم ناصر ۔۔۔ لیتا ہے تیرا کیا بھلا بوڑھا شجر نہ کاٹ

لیتا ہے تیرا کیا بھلا بوڑھا شجر نہ کاٹ اس پر ہیں دیکھ کتنے پرندوں کے گھر نہ کاٹ اچھا ہے کام ، شوق سے پودے نئے لگا لیکن خدا کا نام ، تناور شجر نہ کاٹ کرنے دے انحصار سبھی کو اڑان پر منصف ہے تو،کسی بھی پرندے کے پر نہ کاٹ اکرم خدا کا نام کہیں گھر بنا کے بیٹھ جیون سفر کو اس طرح تو در بدر نہ کاٹ

Read More

اکرم ناصر ۔۔۔ کربلا والوں کے لیے

اک حشر کا سماں تھا ، کنارے فرات کے ہر شخص نوحہ خواں تھا ، کنارے فرات کے اک ضد لگی ہوئی تھی ،کہ بہنا ہے ساتھ ساتھ دریائے خوں رواں تھا ، کنارے فرات کے خنجر کا ، خوں کا ، خاک کا ، پانی کا ، پیاس کا ہر شے کا امتحاں تھا ، کنارے فرات کے گنتی کے جانثار تھے ، پر جانثار تھے انبوہِ دشمناں تھا ، کنارے فرات کے آنکھوں سے دیکھ کر بھی زمیں پر گرا نہیں یہ کیسا آسماں تھا ، کنارے فرات…

Read More