فائق ترابی ۔۔۔ کیے جاتا ہے پانی کو شراب آہستہ آہستہ

کیے جاتا ہے پانی کو شراب آہستہ آہستہ
سمندر میں اتر کے ماہ تاب آہستہ آہستہ

ابھی وہ آنکھ اٹھے گی، ابھی وہ آنکھ پرکھے گی
کئی قسطوں میں ہوگا احتساب آہستہ آہستہ

اگر بندِ قبا کھولو تو پھر اتنی لطافت سے
کہ جیسے مسکراتا ہے گلاب آہستہ آہستہ

ابھی تو چند گھڑیاں ہی جدائی میں گزاری ہیں
کھلے گی خیمہِ دل کی طناب آہستہ آہستہ

کنیز اب شاہِ بوسہ زن سے یوں بھی کہہ نہیں سکتی
"حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ”

تم اُن انگڑائیوں کے رنگ کمرے میں بکھرنے دو
ملیں گے سب سوالوں کے جواب آہستہ آہستہ

ہوائے یاد کچھ ایسے خرام انداز ہے فائق
ہمارے بال ہوتے ہیں خراب آہستہ آہستہ

Related posts

Leave a Comment