انصر حسن ۔۔۔ بات سمجھنے سے قاصر تھے ہم پاگل دیوانے

بات سمجھنے سے قاصر تھے ہم پاگل دیوانے
بستی والے سچ کہتے تھے دور کے ڈھول سہانے

ایک حقیقت ہے یہ کوئی مانے یا نہ مانے
دل کو زخمی کر دیتے ہیں نور جہاں کے گانے

روز نکل جاتا ہوں گھر سے چھوڑ کے شور شرابہ
شہر میں رہ کر ڈھونڈ لیے ہیں میں نے کچھ ویرانے

کیسی تیری میری یاری کیسی رشتہ داری
میرے پاس نہ پھوٹی کوڑی تیرے پاس خزانے

ملا جی نے کھول لیا ہے گھر میں ہی میخانہ
خالص چیز نہیں دیتے تھے شاید وہ میخانے

صحراؤں سے یار شکایت ہے نہ شکوہ کوئی
میرے من میں آگ لگائی اک بہتے دریا نے

تیری اور ہے دنیا انصر تیری اور کہانی
تیرے اور ہیں شام سویرے تیرے اور زمانے

Related posts

Leave a Comment