ڈاکٹر صفدر …. ترقی پسند تحریک کا نمائندہ نقاد: احتشام حسین

اردو دنیا میں احتشام حسین ایک بلند قامت شخصیت کا نام ہے۔ انعامات، اکرام، اعزازات اور احترام کی فضائیں چار طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ان کا اتباع کرنے والے ذی علم اور ذی فہم اہل قلم ان کی تنقید کی اہمیت کا جواز سمجھے جاتے ہیں۔ احتشام صاحب نے بہت لکھا۔ احتشام صاحب پر بہت کچھ لکھا گیا۔ کلیم الدین احمد سے عمیق حنفی اور وہاب اشرفی تک ان سے اختلاف کرنے والے بھی اردو تنقید میں established لوگ ہیں۔ اس گرم بازاری کے باوجود میرا مسئلہ اپنی ’نظر‘ سے وفاداری ہے۔

آدمی یقیناً سماج میں رہتا ہے۔ یہ واقعی نا ممکن ہے کہ ایک با شعور آدمی سماج کے زندہ مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لے۔ وہ اپنے سماج کو در پیش مسائل کے ساتھ زندگی گذارتا ہے۔ مسائل کے ساتھ جینے کا مختلف لوگوں کے لیے مختلف مفہوم اور مختلف سطحیں ہوتی ہیں مثلاً سماجی مسائل کے ساتھ ایک سیاست داں کا معاملہ ایک خاص انداز کاہو گا اور ایک شاعر یا ادیب کاسماجی مسائل کے ساتھ جینا ایک اور مختلف سطح پر ہو گا پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ زندگی کے مسائل بے شمار ہیں۔ معاشی مسائل ہی زندگی کا اول و آخر نہیں ہیں اس کے باوجود ایک بات یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ مسائل اگر ایک سیاست داں، ایک صحافی، ایک مزدور اور ایک شاعر کی زندگی میں قدرے مشترک ہیں اور یہی ان کی پہچان بناتے ہیں۔ تو گویا ہماراسماج رو بو کاسماج ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسانہیں ہے۔ سیاست کی کچھ بنیادی قدریں ہیں جن سے وابستگی ایک شخص کوسیاست داں بناتی ہے۔ صحافت کی اپنی قدریں، محنت کش کی اپنی پہچان اور ادیب و شاعر کا اپنا شناخت نامہ ہے۔ ایک شاعر کی حیثیت سے ہم ایک شخص سے ملنا اور اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ شناخت نامہ ہمارے پاس ہونا ضروری ہے کہ ہم صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں کہ ایک شخص جو شاعر ہونے کا مدعی ہے وہ واقعی شاعر ہے بھی یا نہیں ؟ شاعر ہے، تووہ کس درجہ کا شاعر ہے ؟ ایک شخص جو ادبی نقاد ہونے کا مدعی ہے، اس کا اپنا شناخت نامہ بھی یہی ہے کہ شاعری کے نقاد کی حیثیت سے اس کے پاس شاعری کا شناخت نامہ بھی ہے یا نہیں ؟ احتشام صاحب کا مطالعہ ایک نقاد کی حیثیت سے اسی اصول پر کرنا ہو گا۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک ادبی نقاد کا مطالعہ اگر ان خطوط پر ہوتا ہے تو احتشام صاحب کے یہاں ہمیں بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ پہلے ہی قدم پر آدمی انگلی چھڑانے کی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ہمت کر کے اگر ایک studious آدمی ان کی تنقید کے بحر ذخار میں شناوری کے مصمم ارادے کے ساتھ کود پڑے تب بھی اس کا حاصل حذف ریزے ہی ہوں گے۔

احتشام صاحب فن اور ادب سے کیا مراد لیتے ہیں یہ سمجھنے کے لیے کچھ اقتباسات ملاحظہ فرمائیے:

۱۔       ادب لکھنے والے کے شعور اور خیالات کا وہ اظہار ہے جسے وہ سماج کے دوسرے افراد تک پہچانے کے لیے ایسے فنی ذرائع سے نمایاں کرتا ہے جسے وہ سمجھ سکیں اور جس سے لطف حاصل کر سکیں یا کم از کم سمجھنے کی کوشش کر سکیں۔ (۲۰)

اسی کتاب میں اپنے ایک مضمون ’رومان سے انقلاب تک‘ میں رقم طراز ہیں:

۲۔      شاعر کا عمل تخلیقی ہوتا ہے۔ تخلیقی عمل کے سماجی ہونے کی کسوٹی یہ ہے کہ اس سے سماج کو فائدہ پہنچے۔ محنت کش طبقہ اپنی محنت کا پھل پائے اور آزادی کی جد و جہد میں اس سے مدد ملے۔ شاعری کے تخلیقی عمل ہونے کی کسوٹی بھی یہی ہو سکتی ہے کہ کہاں تک آزادی اور اشتراکیت کی جد و جہد کو آگے بڑھاتی ہے۔

۳۔      ہیئت کی فنی تکمیل کا تعلق شاعر کے شعورسے اتنا گہرا ہے کہ اسے کسی خاص قسم کے خیال کے لیے کوئی خاص اسلوب یا ہیئت اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی تو خود یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچائے جواسلوب اسے سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے وہی اختیار کرتا ہے۔ (۲۱)

اسی مضمون میں رقم طراز ہیں:

شاعری نئے اسلوب میں ہویا پرانے، شاعر کے لیے اپنے مواد پر قدرت، اس سے خلوص، احساس کی شدت کے ساتھ ساتھ زبان پر قدرت کی بھی ضرورت ہے۔ اسے رنگ و صورت، نغمہ و ترنم کی ان تمام لطافتوں سے کام لینا ہے جس سے مواد دل و دماغ پرچھا جائے اور سننے والے میں عمل کی طاقت پیدا کر دے۔ مواد اور ہیئت کے اسی اتحاد کا نام فن ہے۔

احتشام صاحب کے نزدیک شاعری کا تصور ہے ان اقتباسات کی روشنی میں مندرجہ ذیل نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں:

۱۔       شاعری ایسے خیالات کا اظہار ہے جنھیں شاعر دوسروں تک پہنچاتا ہے۔

۲۔      شاعری کے فنی لوازمات ایک ذریعہ ہیں۔ ان کے استعمال کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ لوگوں تک شاعر کے خیالات کی ترسیل ہو سکے۔

۳۔      چونکہ شاعر کا مطمح نظر ہی اپنے خیالات کی ترسیل ہے اس لیے وہ ایسا اسلوب اختیار کرتا ہے جو شاعر کے خیالات کو دل نشیں انداز میں دوسروں تک پہنچاس کے۔

۴۔      شاعر کے لیے ضروری عناصر یہ ہیں:

مواد پر قدرت، مواد سے خلوص، احساس کی شدت، زبان پر قدرت، نغمہ و ترنم کی لطافتوں سے کام لینا۔ ان سب کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ سننے والے میں عمل کی طاقت پیدا ہو جائے۔

۵۔      شاعری ایک تخلیقی عمل ہے۔ ایک منظوم شہہ پارہ تخلیق ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ آزادی اور اشتراکیت کی تحریک کو آگے بڑھاتا ہے۔

۶۔      شاعرکوکسی خاص اسلوب کے اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنے شعور سے مناسب ترین اسلوب خود اختیار کرتا ہے۔

احتشام صاحب کے نزدیک شاعری کے تخلیقی عمل ہونے کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ اشتراکیت کی تحریک کو آگے بڑھاتی ہے۔ احتشام صاحب جب کلاسک اردو شاعری کا مطالعہ پیش کرتے ہیں تو انہیں بار بار مایوسی ہوتی ہے کہ شاعر اشتراکی نہیں ہے۔ اردو میں اشتراکیت کے داخلے سے قبل کاسارا ادب بشمول نظیر اکبرآبادی اور اکبر الٰہ آبادی ان کے لیے ایک جال ہے جس میں وہ پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ وہ وہاں اشتراکیت کی تلاش میں جاتے ہیں اور اسے نہ پا کر بے چینی محسوس کرتے ہیں۔ ’مشتے نمونہ خروارے ‘ یہ مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

(الف) غالب کی شاعری سے بحث کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون ’غالب کا تفکر‘ مشمولہ تنقیدی جائزے میں رقم طراز ہیں:

’’اقتصادی پستی کے اس دور میں جب کسان بڑی حد تک زمین کا مالک نظر آتا ہے لیکن ذرائع پیداوار کے غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے بجھا پڑا ہے۔ جب امراء غیر منظم ہیں اور دستکار بیکار ہوتے جا رہے ہیں ایسے شعور کی امید کرنا جوکسی منظم فلسفہ زندگی کی تلقین کر سکے، ارتقائے شعور کی مادی بنیادوں سے ناواقفیت کے برابر ہو گا۔ ‘‘

(ب)  اپنے ایک مضمون ’نظیر اکبرآبادی اور عوام‘ مشمولہ تنقیدی جائزے میں لکھتے ہیں:

’’بہرحال نظیر اکبرآبادی کے کلام کا تجزیہ کرتے ہوئے جب ہم عوام کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس کا مقصد اشتراکی تصورات سے بننے والے عوام، آزادی، جمہوریت اور ترقی کا تصور رکھنے والے عوام سے نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کا وہ عام طبقہ ہوتا ہے جسے جاگیرداری کے زمانے میں زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہوتی لیکن جس کی زندگی میں بھی شاعر کا مشاہدہ شاعر کے لیے مواد تلاش کر سکتا ہے۔ اس لیے نظیر کو دور جدید کا علمبردار کہہ سکتے ہیں اور نہ پرولتاری شاعر بلکہ دیسی دربار کی گھٹی ہوئی فضا سے دور رہ کرتا زہ ہوا میں سانس لینے والا … شاعر کہہ سکتے ہیں۔ ‘‘

(ج)   مضمون ’غالب کا تفکر‘ ہی سے ایک اور مثال:

’’غالب کے یہاں تضاد ہے لیکن ایسافلسفہ جو تضاد سے خالی ہو، محض غیر طبقاتی اشتراکی سماج میں جنم لے سکتا ہے۔ ‘‘

(د)    اسی مضمون سے ایک اوراقتباس:

’’جب تک طبقات واضح طور پر ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہوں ایک شاعر کے طبقاتی شعور یا اس کی جانب داری کے متعلق قطعی رائے قائم کرنا یا چند سطحی اور ظاہری خیالات کی بنیاد پر نتیجہ نکالنا سہل پسندی قرار پائے گا۔ ایسے عبوری دور میں جب طبقاتی جد و جہد واضح نہ ہو طبقات اور زیادہ گھل مل جاتے ہیں اور شعراء ایسے معتقدات کے عام انسانوں کے متعلق باتیں کرنے لگتے ہیں جن کی طبقاتی نوعیت کا پتہ نہیں چلتا۔ ‘‘

جب اشتراکیت شاعری کے تخلیقی ہونے کا معیار ٹھہری تو شاعر جو اپنے ’خیالات‘ دوسروں تک پہچانا چاہتا ہے، اشتراکیت کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں۔ احتشام صاحب شاعر کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں کہ وہ ’مواد پر قدرت رکھتا ہو۔ ‘ ’مواد سے خلوص رکھتا ہو۔ ‘ تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ شاعرکامارکسیت کا مطالعہ بہت گہرا ہو اور خلوص رکھنے کے یہ معنی سمجھ میں آتے ہیں کہ شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ مارکسیت کے علمبردار ہو، وفادار ہو۔ بے شک ایک ایسا شخص جومارکسی اصولوں کا وفادار نہیں، اسے آپ اشتراکی جماعت سے باہر کیجئے۔ مگر آپ کو یہ حق کسی طور پر حاصل نہیں کہ آپ اسے شاعروں کی فہرست سے نکال باہر کریں۔ احتشام صاحب ’اسلوب‘ کی بات کرتے ہیں، مگرایسا معلوم ہوتا ہے وہ اسلوبیات سے قطعاً ناواقف ہیں۔ زبان پر قدرت، نغمہ و ترنم کی لطافتوں سے کام لینا، احساس کی شدت وغیرہ، سب ان کے نزدیک منافقانہ حربوں کے طور پر استعمال ہونے والی چیزیں ہیں کہ ان کی مدد سے ایک اشتراکی جو شاعر کے، روپ میں ہے، سامع کے دل پر چھا جائے اور اسے اشتراکی انقلاب کے لیے کھڑا کر دے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاعر وہ شخص ہے جس میں پلیٹ فارم سے بولتے لیڈر کی روح حلول کر گئی ہے۔ احتشام صاحب ذاکر بھی رہے ہیں۔ ذاکر کا اسلوب بیان ایک پرچارک کا اسلوب ہے۔ وہ شاعر کے یہاں بھی یہی چیز تلاش کرتے ہیں اور جس کے یہاں ملتا ہے اس شاعر کی پیٹھ ٹھونکتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ شاعر کو اسلوب کے تعلق سے کوئی مشورہ نہیں دیا جا سکتا۔ انہیں فوراً غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور قبل اس کے کہ اس فقرے کو پڑھ کر شاعر رسی تڑا کر بھاگ نکلے، احتشام صاحب اچھے اسلوب کی وکالت کرتے ہوئے اس کی طرف بلاتے ہیں:

’’جواسلوب اسے (شاعر کو) سب سے زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے وہی اختیار کرتا ہے۔ جدید اردو شاعری میں اس کی بہترین مثال ڈاکٹر اقبال اور جوش ملیح آبادی کی شاعری سے پیش کی جا سکتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا اسلوب ان کے مواد سے ہم آہنگ نہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ نظمیں کسی دوسری شکل میں اس سے زیادہ موثر تر، اس سے زیادہ لطیف اور خوبصورت ہو سکتی تھیں ؟۔ ‘‘

زبان کا جدلیاتی استعمال جو شاعری کو گنجینۂ معنی کاطلسم بناتا ہے، جیسے تشبیہ، استعارہ، علامت اور پیکر وغیرہ، احتشام صاحب کے نزدیک اظہار خیال کے ذرائع ہیں۔ اصل حیثیت و خیالات کی ہے جن کادوسروں تک پہچانا ضروری ہے۔ تشبیہ، استعارہ، پیکر، علامت، غنائیت یہ سب چیزیں اس لیے ضروری ہیں کہ قاری کو متاثر کرنے کے کام آئیں اور ان کے وسیلے سے خیالات کی ترسیل ہو۔ رین سم پیکرسے بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیکر اپنے مقام پر دریافت ہوتا ہے۔ یعنی استعارہ یا پیکر کی دریافت ہی اصل شاعری ہے۔ احتشام صاحب اس تخلیقی دریافت کے قائل نہیں ہیں۔ وہ ا-ح نور ازل کے نام سے شاعری بھی کرتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ ان کی شاعری کسی زاویے سے لائق توقع نہیں قرار دی جا سکتی۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ باوجود شعر کہنے کے وہ تخلیقی بھول بھلیاں اور تخلیق کے خود کار نظام سے ناواقف ہیں۔

جہاں تک خیالات کی ترسیل کاسوال ہے۔ شاعری خیالات کی باز آفرینی ہے تو یہ کہاں ضروری ہے کہ خیالات کی ترسیل شاعری کے ذریعہ ہو۔ ہم مارکسزم کا مطالعہ براہ راست مارکس کی das capital اور لینن کی دوسری تحریروں سے کر سکتے ہیں۔ دنیا میں کہیں آج تک شاعری کے ذریعہ انقلاب نہیں آیا بلکہ یہ ہوا کہ دنیا کے عظیم انقلابی جب شاعری کرتے ہیں تو انقلاب و انقلاب سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اقبال کی شاعری پڑھ کر کوئی نماز کے لیے مسجد کی طرف نہیں دوڑتا۔ اسی طرح مجروح کا کلام پڑھ کر کوئی نازنین دوپٹے کا پرچم بنا کر نکل کھڑی ہوئی ہو، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔

احتشام صاحب شاعری میں ابہام کے بھی قائل نہیں ہیں وجہ یہ ہے کہ شاعری سماج کے لیے ہوتی ہے اور اگر شاعری مبہم ہونے کی صورت میں سماج طرز اظہار کی پیچیدگی کی وجہ سے پیچھے چھوٹ جائے تو یہ ایک بہت خطرناک بات ہو گی۔

ایجاز جو شاعری کا بنیادی عنصر ہے، ابہام کو راہ دیتا ہے۔ دنیا بھر کی بڑی شاعری ہمیشہ عوام کی دسترس سے دور رہی۔ میرؔ، غالبؔ، دردؔ، اقبالؔ، فیضؔ، فراقؔ، حتیٰ کہ سردار جعفری کی شاعری عوام الناس کی دسترس سے باہر ہے۔ شاعری کا بنیادی کام اثر آفرینی ہے۔ شاعری کی یہی صفت، ایک انقلاب پسند کو اس کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اس سے کام لے کر انقلاب برپا کیا جائے۔ اس کے لیے وہ شاعری کو ’عوامی‘ بنانا چاہتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ عوامیت کی دھن میں ’شاعری‘ اپنا اصل جوہر کھو بیٹھتی ہے اور اثر آفرینی کے کام کی نہیں رہ جاتی۔ نظیر، جوش اور مجروح کی شاعری اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر احتشام صاحب اس حقیقت کوتسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ مضمون ’مواد اور ہیئت‘ مشمولہ تنقیدی جائزے میں رقمطراز ہیں:

’’شاعر کو خود یہ جاننا چاہیے کہ وہ سماج سے علیحدہ نہیں ہے وہ یہ نہیں کر سکتا کہ اپنی بات خود ہی سمجھے اور یہ نہ دیکھے کہ پڑھنے اور سننے والے اس کے ساتھ چل رہے ہیں یا نہیں ؟ اگر سماج طرز اظہار کی پیچیدگی اور ابہام کی وجہ سے پیچھے چھوٹ جائے تو یہ فن کے لیے ایک بڑی خطرناک علامت ہے۔ اگر شاعری گونگے کا خواب بن کر رہ جائے تووہ شاعری، شاعری ہی نہیں رہ جاتی۔ ‘‘

وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ شاعری میں عظمت کاعنصرفلسفہ کا مرہون منت ہے۔ ’تنقید اور عملی تنقید‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:

’’عملی تنقید کے سلسلے میں یہ سوال بھی برابر پیدا ہوتا ہے کہ کیا شعر و ادب کے اندرفلسفہ کا ہونا ضروری ہے ؟ کیا ادب میں عظمت فلسفہ سے پیدا ہوتی ہے ؟ اور کیا شاعر کے پاس کسی مکمل اور منظم فلسفۂ حیات کا ہونا لازمی ہے ؟… مختصراً ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ایک اعلیٰ درجہ کے ادیب اور شاعر کے پاس کوئی نہ کوئی فلسفۂ خیال ضروری ہوتا ہے اور وہ اپنے افکار و خیالات پیش کرتے ہوئے اس کا خیال ضرور رکھتا ہے کہ اس کے بیانات میں تضاد نہ ہو اور اس کے پیش کردہ حقائق ایک دوسرے کی نفی نہ کریں اور اگر اس کے پاس کچھ کہنے کو ہے تووہ ایک منطقی تسلسل کے ساتھ پیش کیا جائے … نظم یاکسی ادب پارہ کو منظوم فلسفہ کہنادرست نہیں۔ پھر بھی یہ کہنا کہ فلسفیانہ گہرائی ادب میں عظمت نہیں پیدا کرتی، ہٹ دھرمی ہے۔ فلسفہ ادیب کے شعور کا جزو اور عملی زندگی کی صداقتوں کا نقیب بن کر ادب میں جگہ پاتا ہے۔ ‘‘

اس عقیدے کی چھان پھٹک سے جدید تنقید بھری پڑی ہے۔ اس چھوٹے سے پیراگراف میں بڑی عجیب اور متضاد باتیں کہی گئی ہیں۔ مثلاً ایک ہی وقت میں وہ یہ کہتے ہیں کہ شاعری منظوم فلسفہ نہیں ہے۔ دوسرے لمحہ یہ کہتے ہیں کہ ’ادب میں فلسفہ سے عظمت پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘ اس امر سے اختلاف ’ہٹ دھرمی‘ ہے۔ احتشام صاحب سوال اٹھاتے ہیں تو امید بنتی ہے کہ وہ تلاش وتجسس کے ذریعہ دلائل لائیں گے اور ثابت کریں گے کہ دنیا کے بڑے شاعروں کے یہاں عظمت کاعنصرفلسفہ کا مرہون منت ہے۔ مگر وہ ایک عمومی بیان کے ذریعہ فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کے ادیب یا شاعر کے پاس کوئی نہ کوئی فلسفۂ خیال ضروری ہے۔ ایک عمومی شخصی رائے کو اصول کی شکل میں پیش کرنا بجائے خود ہٹ دھرمی ہے۔

نظریہ یافلسفہ شاعری کا یا بڑی شاعری کا لازمہ ہے اس مفروضے پر احتشام صاحب کی تنقید کی عمارت کھڑی ہے۔ اس مفروضے کے ساتھ چلتے ہوئے وہ شعر کی پرکھ کا معیار مقرر کرتے ہیں۔ ذیل میں چنداقتباسات نقل کئے جاتے ہیں جن سے احتشام صاحب کے ’شعری پرکھ‘ کے معیار پر روشنی پڑتی ہے:

(الف) اگر تنقید محض اشعار کے فنی محاسن اور معائب کے شمار کر لینے کا نام نہیں ہے … تو یہ ضروری ہے کہ شاعر کے دل اور روح تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کی ذہنی سیاحت میں اس کا ہم سفربنا جائے اور ہر خیال کی مادی بنیاد کا پتہ لگایا جائے اسی طرح اس کے فنی شعور کا تجزیہ یہ بھی ہو سکے گا اور اس کے محرکات شعری کا علم بھی… جب تک اصل خیالات اور عقائد کا علم نہ ہو شاعر کے روایتی اور حقیقی تصورات میں تمیز کرنا تقریباً نا ممکن ہے پھر تنقید کس چیز کی ہو گی؟

(ب)  اسی مضمون میں رقم طراز ہیں:

’’جو شاعری کوساحری اور بے جان لفظوں کو چلتی ہوئی تلوار بناتی ہے اسے الفاظ میں نہیں شاعر کے دل میں تلاش کرنا چاہیے۔ ‘‘

احتشام صاحب نے یہ مفروضہ پہلے ہی قائم کر لیا کہ تنقید شعر کے فنی محاسن اور معائب کے بیان کرنے کا نام نہیں ہے۔ اگر شاعری ایک فن ہے تو شاعری کی تنقید سے فنی محاسن اور معائب کی تلاش کو خارج کرناسمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ شعری تنقید کے بنیادی پتھر کو ہٹا دیا گیا۔ اب جو دیوار قائم ہو رہی ہے وہ ایک مفروضہ پر قائم ہے۔ پھر یہ کہ اصل عقائد شاعری کوساحری اور لفظوں کو چلتی ہوئی تلوار بناتے ہیں (یا حیرت؟ شاعری کے فنی محاسن کو احتشام صاحب یہ درجہ نہیں دیتے کہ وہ شاعری کوساحری اور لفظوں کو چلتی ہوئی تلوار بناتے ہیں۔ )وجہ یہ ہے کہ ان کی تلاش ہی ہمارا مطمح نظر نہیں ہے۔ ہم تو شاعری میں نظریہ ڈھونڈھنا چاہتے ہیں اسی لیے فرماتے ہیں کہ اصل عقائد کا علم نہ ہو تو پھر تنقید کس بات کی؟‘ گویا تنقید، نظریات عقائد اور فلسفوں کی تلاش کا نام ہے۔ یہ کام بھی شعر کے حوالے سے نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے کچھ اور ذرائع اختیار کئے جائیں گے جن کا ذکر احتشام صاحب کے یہاں نہیں ملتا۔ یہ بات یقینی ہے کہ وہ ذریعہ تحلیل نفسی نہیں ہے۔ بے چارے تحلیل نفسی والے بھی تو شاعری ہی کو جو لفظوں میں ظاہر ہوئی ہے ذریعہ بناتے ہیں۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ شاعر کی تنقید، شاعری کی بجائے کہیں اور سے شروع ہو گی اور اس پر ختم ہو گی۔ ’شاعری‘ جو تنقیدی مطالعہ کا موضوع ہے درمیان سے یوں غائب ہے کہ اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ ترقی پسند شاعری پروپگنڈے کے لیے بدنام ہے مگر ہوتا یہ ہے کہ شاعر جب نظریہ کی گرفت سے نکل کر اپنی جون میں واپس آتا ہے تو ترقی پسندشاعر بھی اعلیٰ درجہ کی غیر پروپگنڈائی شاعری کرتا ہے۔ ہر بڑے ترقی پسند شاعر کے یہاں یہ بات ملتی ہے۔ مگر ترقی پسند تنقید پر فرار کے راستے مسدود ہیں۔ نقاد کے لیے ایک سیدھی لکیر سے مفر نا ممکن ہوتا ہے جبکہ نظریاتی عقائد کے کٹرسے کٹر موئید شاعر کو بھی اس کا تخیل اڑا لے جاتا ہے اس لیے ان کے یہاں شاعری ضرور ملتی ہے مگر افسوس کہ ترقی پسند تنقید ترقی پسند تو ہوتی ہے، شعر کی تنقید نہیں ہوتی۔ ایسے نقاد کو ناپنے عقائد کی بازگشت شاعر کے یہاں نہ ملے تووہ بے چین ہو جاتا ہے اور پھر کم سے کم اس بات پر اکتفا کرتا ہے:

’’اکبر کی شاعری اور فن کا مطالعہ انیسویں صدی کے ربع آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی بیس سالوں کے سمجھنے میں بہت معاون ہو گا اور ان کا کلام خاص کر مسلمان خواص اور متوسط طبقہ کی بے بسی اور ذہنی کیفیت کا ترجمان بن کراس دور کی معاشی اور تہذیبی کشمکش کا اندازہ لگانے میں بڑی مدد کرے گا۔ ‘‘

دیکھا آپ نے، اکبر پھر درمیان سے غائب ہو گئے۔ اس دور کے رئیس اور متوسط طبقے کے لوگ موضوع بن گئے۔ نقاد کو صرف بورژوا دکھائی دیتا ہے یا پرولتاری شاعر منہ تکتا رہ جاتا ہے کہ آخر ہم کس مرض کی دوا ہیں ؟

احتشام صاحب خاصے پڑھے لکھے آدمی تھے۔ اہل علم و ادب کے حلقے میں انہیں بڑے احترام کی نظرسے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست، مگر میرا مطالعہ جس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے، مجھے اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ نظریاتی وابستگی اور یک طرفہ فکر نے انہیں اپنی ذہانت اور مطالعہ اور مشاہدے کے امکانات کو بروئے کار لانے کا موقع نہ دیا۔ ان کی ادعائیت انہیں ادبی نقاد نہیں بننے دیتی۔ مجھے احتشام صاحب کو شاعری کا نقاد ماننے میں تامل ہے۔ باقر مہدی کہتے ہیں اردو میں اکثر شہرتیں ریت کے محل ہیں کوئی ان پر ضرب ہی نہیں لگاتا۔

کیا احتشام صاحب کی شہرت بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے ؟

Related posts

Leave a Comment