آصف ثاقب ۔۔۔ جاں لیوا وبا سے قسمت کی تاثیر بنانی ہوتی ہے

جاں لیوا وبا سے قسمت کی تاثیر بنانی ہوتی ہے
اس اپنے وطن کی مٹی سے اکسیر بنانی ہوتی ہے

ہم اپنے خون کی لرزش سے ہاتھوں کو مصّور کرتے ہیں
ہر غم کی خام لکیروں سے تصویر بنانی ہوتی ہے

جذبات کی لہریں اُٹھ اٹھ کر کاغذ پہ تماشا بنتی ہیں
جب مجھ کو شکستہ لفظوں کی تحریر بنانی ہوتی ہے

ان جھوٹی سچی باتوں کے جذبات ہوئے ہیں جوش بھرے
اک آگ لگانے والی جب تقریر بنانی ہوتی ہے

ہر شعر میں بھردوں حسنِ نظر ہر لفظ ہو گلشن زخموں کا
اس کیف میں مجھ کو اپنی غزل کشمیر بنانی ہوتی ہے

دامن میں خس و خاشاک بھروں چہرے پہ سفر کی گرد ملوں
اس طور سے مجھ کو کیوں ثاقب تقدیر بنانی ہوتی ہے

انصاف کی خاطر کون مرے دربار میں جا فریاد کرے
اپنی ہی جان کے ٹکڑوں سے زنجیر بنانی ہوتی ہے

Related posts

Leave a Comment