وسیم عباس ۔۔۔ فطرت میں جدا زہر زمانے سے ملا ہے

فطرت میں جدا زہر زمانے سے ملا ہے
اک سانپ مجھے ایسا خزانے سے ملا ہے

منزل کے نشاں آبلہ پائی سے کھلے ہیں
چھائوں کا پتا دھوپ میں آنے سے ملا ہے

جینے کے سبب جتنے ہیں، سامان ہے جتنا
سب احمدِ مرسلؐ کے گھرانے سے ملا ہے

دنیا کے کسی در سے میسر نہیں آیا
جو فیض مجھے شعر کمانے سے ملاہے

برسوں سے جسے ڈھونڈ رہا تھا میں وہ چہرہ
مجھ کو تری تصویر بنانے سے ملا ہے

قدموں میں مرے پھینک دی تلوار جہاں نے
جب میرا نشانہ بھی نشانے سے ملا ہے

آئی نہ کسی کام کبھی میری سماجت
وہ شخص مجھے سر کو اٹھانے سے ملا ہے

Related posts

Leave a Comment