آفتاب خان ۔۔۔ حصارِ ہجر میں آہُو کو ہوں دبوچ رہا

حصارِ ہجر میں آہُو کو ہوں دبوچ رہا
عجیب شخص ہوں ، کِس کا بدن ہوں نوچ رہا

مجھے گدازِ محبت کے دن ہیں یاد ابھی
کہ دست و لمس میں اب تک اُسی کا لوچ رہا

کسی کی نیند سے میں بھی گزر سکا کہ نہیں
میں تختِ خواب پہ لیٹے ہوئے ہوں سوچ رہا

ڈرے ہوے ہیں سبھی لوگ اس لیے شاید
ہر ایک دل کی عمارت میں کاکروچ رہا

یہ جب خبر ہے کہ حاصل وصول کچھ بھی نہیں
تو بار بار زمیں کو ہے کیوں کھروچ رہا

وہ ریگ و خِشت گلی سے بھی سب اُٹھائے گا
ابھی مکان کے دیوار و در ہے پوچ رہا

بلندیوں کی تمنا میں گو زقند بھری
بہت دنوں ہی مگر مبتلائے موچ رہا

Related posts

Leave a Comment