توقیر عباس… ہوا ہے کون کس کا کب مسافر

ہوا ہے کون کس کا کب مسافر
یہاں تو لوگ ٹھہرے سب مسافر

یہاں رستا بھٹکنے کا ہے امکاں
کسی کے ساتھ رہنا اب مسافر

بہر سو فصل سرسوں کی کھلی تھی
یہی دن تھے ہوئے تھے جب مسافر

خط ِتنسیخ امیدوں پر کھچا ہے
تبسم تیرا زیرِلب مسافر

ہمیں بھی زندگی کرنا تھی لیکن
ہمیں آیا نہیں ہے ڈھب مسافر

کہانی کا وہ کیسا موڑ ہوگا
مسافر سے ملے گا جب مسا فر

نم آنکھوں سے کسی نے مجھ سے پوچھا
بچھڑ کر اب ملو گے کب مسافر

کوئی زہرہ جبیں راس آئے کیسے
کہ دل کا بُرج ہے عقرب مسافر

سناتے تھے کہانی جنگلوں کی
بچے ہیں لوگ کتنے اب مسافر

کسی نے زہر کھانے میں ملایا 
سنا ہے مر گئے کل شب مسافر

سفر کرنے کی خواہش اس نے کی تھی
ہوے تھے لوگ کتنے تب مسافر

کسی کی یاد میں آنسو بہائے
کسی کی آنکھ نے ہر شب مسافر

پرندے راستہ بھولے ہوئے ہیں
بتائیں آندھیوں کو اب مسافر

بگولے درس دیتے تھا وفا کا
کھلے تھے دشت میں مکتب مسافر

نمایاں تھے کبھی آوارگی سے
ہمارا تھا یہی منصب مسافر

Related posts

Leave a Comment