حامد یزدانی ۔۔۔ چٹکتی یاد، گئی رات کی، پڑی ہوئی ہے

چٹکتی یاد، گئی رات کی، پڑی ہوئی ہے
اُداس صحن میں کچھ چاندنی پڑی ہوئی ہے

جو چاہیے جسے لے جائے راستے کے لیے
یہاں اندھیرا، وہاں روشنی پڑی ہوئی ہے

ٹھہر تو جاؤں سرِ مرگ دوگھڑی میں بھی
مگر جو پیچھے مِرے زندگی پڑی ہوئی ہے!

نہ مسکراؤ، چلو دھوپ کی دعا دے دو
بہت دنوں سے اِدھر رات سی پڑی ہوئی ہے

ابھی ابھی کوئی شاید اُٹھا ہے پڑھتے ہوئے
کتابِ رفتہ کہ حامدؔ کُھلی پڑی ہوئی ہے

Related posts

Leave a Comment