میر تقی میر ۔۔۔ خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہوگیا

خوبی کا اس کی بسکہ طلب گار ہوگیا
گل باغ میں گلے کا مرے ہار ہوگیا

کس کو نہیں ہے شوق ترا پر نہ اس قدر
میں تو اسی خیال میں بیمار ہوگیا

ہے اس کے حرفِ زیر لبی کا سبھوں میں‌ ذکر
کیا بات تھی کہ جس کا یہ بستار ہوگیا

تو وہ متاع ہے کہ پڑی جس کی تجھ پہ آنکھ
وہ جی کو بیچ کر بھی خریدار ہوگیا

کیا کہیے آہ عشق میں خوبی نصیب کی
دل دار اپنا تھا سو دل آزار ہو گیا

کب زد ہے اس سے بات کے کرنے کا مجھ کومیرؔ
ناکردہ جرم میں تو گنہ گار ہو گیا

Related posts

Leave a Comment