خورشید ربانی ۔۔۔۔ ہر ایک گھر میں ، ہر اک بام پر اندھیرا ہے

ہر ایک گھر میں ، ہر اک بام پر اندھیرا ہے
چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے

دکھائی دیتا نہیں اپنا آپ بھی مجھ کو
سو کیا بتاؤں یہاں کس قدر اندھیرا ہے

یہ جان لو کہ یہاں آخری دیا ہوں میں
کوئی پکارا اُدھر سے جدھر اندھیرا ہے

زمیں ٹھکانہ کروں یا فلک پہ اُڑتا پھروں
مرے نصیب میں تو عمر بھر اندھیرا ہے

ہوائے کم نظراں لے اُڑی چراغوں کو
کسی نے دیکھا نہیں اِس قدر اندھیرا ہے

ہوائیں اُس کی طرف ہیں ، دیے ہیں میری طرف
سو دیکھتے ہیں میاں اب کدھر اندھیرا ہے

دلِ زمانہ بھی کیا ہے کہ جس کی نظروں میں
کبھی اُجالا کبھی معتبر اندھیرا ہے

Related posts

Leave a Comment