منقبت ِ علی المرتضیٰ ؑ
مرا سفینۂ ایماں ہے ، ناخدا بھی علی ؑ
مری نماز علی ؑ ہے ، مری دعابھی علی ؑ
وجود و واجد و موجود و ماجرا بھی علیؑ
شہود و شاہد و مشہود و اشتہا بھی علیؑ
ہے قصد و قاصد و مقصود و اقتضا بھی علی ؑ
رضا و راضی ، رضی اور مرتضیٰ ؑ بھی علیؑ
مرے لئے ہیں سبھی اجنبی علی ؑ کے سِوا
مرے لئے تو ہے تمہیدِ اقرباءبھی علیؑ
ہے اُس کی ذا ت میں مرکوز عصمتِ تخلیق
ابو لائمہ بھی ہے ، زوجِ ِفاطمہؓ بھی علیؑ
اَبو ترابؑ و شرف یابِ آیۂ تطہیر
ہے راز دارِ حِرا و مباہلہ بھی علیؑ
وہی مسیحؑ کا ایلی ہے ، خضرؑ کا رہبر
وہی ہے شیرِ خدا ، موسویؑ عصا بھی علیؑ
وہی ہے نقطۂ باء اور مُعلّمِ جبریلؑ
ہے بابِ علم بھی اور حجّتِ خدا بھی علیؑ
حنین و بدر و اُحد ہوں کہ خندق و خیبر
ہے کار ساز و ید اللہ ولا فتی بھی علی ؑ
خدا کے گھر میں ولادت ہوئی شہادت بھی
خدا کے گھر میں ہے بردوشِ مصطفی بھی علی ؑ
نمازِ عصر کی خاطر پلٹ گیا سورج
ہے قیدِ عصر سے والعصر ماورا بھی علی ؑ
وہ ذوالعشیر کا داعی ، ” خلیفتی فیکم “
شریکِ عقدِ مواخاتِ مجتبیٰ بھی علی ؑ
ملیکِ اَمر ، ولایت پناہ ، ظلِ اِللہ
عطا وجود و سخا ، فقر کی رِدا بھی علی ؑ
ہے رازِ کن فیا کوں ، مظہر العجائب ہے
کہ انتہا ہے علی ؑ اور منتہیٰ بھی علی ؑ