خاور اعجاز ۔۔۔ دو غزلیں

عیشِ دُنیا سے مجھے کوئی سروکار نہیں
فقر منزل ہے مِری ، درہم و دینار نہیں

زین کَس رکھی ہے اور باگ پکڑ رکھی ہے
کون کہتا ہے کہ مَیں چلنے کو تیّار نہیں

کس لیے پھرتی ہے دُنیا مِرے آگے پیچھے
اِس سے مَیں بات بھی کرنے کا روادار نہیں

رحلِ دل پر مجھے رکھیے نہ کہ طاقِ در پر
مصحفِ شوق ہُوں مَیں پرزۂ اخبار نہیں
میرے لفظوں کے دیے کچھ بھی نہ کام آ پائے
لوگ کہتے رہے تقریر دھواں دھار نہیں

ہاں میں ہاں روز مِلانے کے ہم عادی ہی سہی
کیا بُرا ہے جو کہیں زور سے اِک بار ’’نہیں‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارہا ہم نے تکلّف کِیا ، جا کر لائے
زندگی کون تجھے روز منا کر لائے

مار ڈالیں گے وہی لوگ مجھے چھائوں میں
جو مجھے دھوپ کے چنگل سے چھڑا کر لائے

حشر تک دیکھا کیے روز پلٹ کر اُس کو
ایک ہی خواب جو دُنیا سے بچا کر لائے

میری مسند سے مجھے روز گرانے والے
آخری دن مجھے شانوں پہ اُٹھا کر لائے

کب بھلا جاگتا مَیں نیند کا ماتا لیکن
لانے والے تِری آواز سنا کر لائے

Related posts

Leave a Comment