سید فرخ رضا … خونِ دل سے دیے جلاتے ہیں

خونِ دل سے دیے جلاتے ہیں
شہرِ جاناں کو یوں سجاتے ہیں

زندگی چاہے کرب میں گزرے
تجھ سے وعدے مگر نبھاتے ہیں

جب سے اُس دل میں ہم مقیم ہوئے
دوست حیرت سے دیکھے جاتے ہیں

جو جلاتے ہیں نفرتوں کی آگ
کب جہاں میں سکون پاتے ہیں

ہیں وہی لوگ لائقِ تحسین
دوسروں کے جو کام آتے ہیں

کیسا موسم ہے شہر پر طاری
دوست پیارے بچھڑتے جاتے ہیں

تیری گفتارِ دل نشیں سن کر
گل خزاں میں بھی مسکراتے ہیں

پھول چاہت کے جس سے کھل جائیں
گیت ہم ایسے گاتے آتے ہیں

وہ جو مسند نشیں کبھی تھے یہاں
خاک گلیوں میں اب اڑاتے ہیں

ہم ترے عشق میں اے جانِ جاں!
زخم کھا کر بھی مسکراتے ہیں

Related posts

Leave a Comment