وقت انسانیت پہ بھاری ہے
عالمِ ہو ہے ، خوف طاری ہے
دو قدم ہم کہ چل نہیں سکتے
اور زمانے کی دوڑ جاری ہے
آستینوں میں سانپ پلتے ہیں
شہر میں ہر سو مارا ماری ہے
نان و نفقہ کو ڈھونڈنے نکلیں
کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے
ٹوٹے پھوٹے خیال و خواب لیے
جیسے تیسے ہی شب گزاری ہے
اب کے بچنا محال ہے شاہد
اب کے دشمن کا وار کاری ہے