طارق بٹ ۔۔۔ وہ زِیاں لایا ہے دل

وہ زِیاں لایا ہے دل
خود سے بھر پایا ہے دل

کس بھروسے پر جیا!
کیسا پچھتایا ہے دل

کیا کہوں کس کس گلی
ٹھوکریں کھایا ہے دل

پوچھیے مت اِس گھڑی
کس نے کلپایا ہے دل

زخم ہے خود ہی کہیں
اور کہیں پھایا ہے دل

نقش ہے اس پر تمام
کچھ جو بِسرایا ہے دل

بھولنا بھی ہے دوا
’’ایسا فرمایا ہے دل‘‘

سود ہے جس کا زِیاں
ایسا سرمایہ ہے دل
عاقلاں کے مشورے
غور کر آیا ہے دل

جی میں آئی، ٹھان کر
رقص فرمایا ہے دل

ہاتھ سے کیوں جانے دے
تجھ پہ گر آیا ہے دل

درد، اپنا ہے سفر
کون ہم پایہ ہے دل

کیا رکھوں رختِ سفر
ساتھ جب آیا ہے دل

Related posts

Leave a Comment