اقبال قمر…. ذرا سی بات چلی داستانیں کھلنے لگیں

ذرا سی بات چلی داستانیں کھلنے لگیں
کہ تیر تھے ہی نہیں اور کمانیں کھلنے لگیں

وہ اک خیال جو ہم نے کبھی تراشا تھا
اسی کے نام پہ ساری دکانیں کھلنے لگیں

بس ایک عزمِ مصمم ہے راستے کی کلید
قدم اٹھایا نہیں اور چٹانیں کھلنے لگیں

سکوت تھا کہ سبھی حلقہ ہائے نور میں تھے
چراغ بجھتے گئے اور زبانیں کھلنے لگیں

خدا نہ کردہ ہو عجلت مزاج تم سا قمر
شکار آیا نہیں اور مچانیں کھلنے لگیں

Related posts

Leave a Comment