مظفر حنفی ۔۔۔کر گئے ہجرت پرندے پھر چلی ٹھنڈی ہوا

کر گئے ہجرت پرندے پھر چلی ٹھنڈی ہوا
ہے شگوفوں کا دمِ آخر چلی ٹھنڈی ہوا

آستیں شبنم نے تَرکی سبزۂ بیگانہ کی
غنچۂ نورستہ کی خاطر چلی ٹھنڈی ہوا

زرد رو مال اپنا جھٹکا تھا خزاں سے اُس طرف
گلستاں سے کہہ کے ’جی حاضر‘ چلی ٹھنڈی ہوا

دیکھ لینا بیچ ہی میں دھجیاں اڑ جائیں گی
اس طرف مسجد اُدھر مندر ، چلی ٹھنڈی ہوا

جب خفا تھیں اس کی یادیں حبس تھا دل میں بہت
پھر گھٹا گھر آئیں بالآخر، چلی ٹھنڈی ہوا

Related posts

Leave a Comment