کر گئے ہجرت پرندے پھر چلی ٹھنڈی ہوا
ہے شگوفوں کا دمِ آخر چلی ٹھنڈی ہوا
آستیں شبنم نے تَرکی سبزۂ بیگانہ کی
غنچۂ نورستہ کی خاطر چلی ٹھنڈی ہوا
زرد رو مال اپنا جھٹکا تھا خزاں سے اُس طرف
گلستاں سے کہہ کے ’جی حاضر‘ چلی ٹھنڈی ہوا
دیکھ لینا بیچ ہی میں دھجیاں اڑ جائیں گی
اس طرف مسجد اُدھر مندر ، چلی ٹھنڈی ہوا
جب خفا تھیں اس کی یادیں حبس تھا دل میں بہت
پھر گھٹا گھر آئیں بالآخر، چلی ٹھنڈی ہوا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...