مظفر حنفی ۔۔۔ ہر طرف ریت نہ تھی راہ میں دریا تھے کئی

ہر طرف ریت نہ تھی راہ میں دریا تھے کئی
اس خرابے میں کبھی اپنے شناسائے تھے کئی

اس کو دیکھا تو طبیعت نہ بھری دیکھنے سے
جگمگاتا تھا وہی یوں تو ’ستارا‘ تھے کئی

آئنہ کہتا تھا دھندلی ہے بصیرت میری
دل میں جھانکا تو وہاں عکس ہویدا تھے کئی

گرد اڑانے کا مزہ آبلہ پا سے پوچھو
ورنہ بسنے کے لئے شہرِ تمنّا تھے کئی

لائقِ دید تھا منظر مری غرقابی کا
کوئی تنکا نہ بنا، محوِ تماشا تھے کئی

وہ جو کھلتے ہی نہ تھے دُزدِ حنا کی مانند
شعر سنتے ہی مرے آگ بگولا تھے کئی

Related posts

Leave a Comment