اس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا پوجے سے اور پتھر ہوتے ہیں یہ صنم تو اب کس طرح اطاعت ان کی کروں خدایا تاچرخ نالہ پہنچا لیکن اثر نہ دیکھا کرنے سے اب دعا کےمیں ہاتھ ہی اُٹھایا آخر کو مر گئے ہیں اُس کی ہی جستجو میں جی کے تئیں بھی کھویا لیکن اُسے نہ پایا لگتی نہیں ہے دارو ہیں سب طبیب حیراں اک روگ میں بِساہا جی کو کہاں لگایا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...