مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
القصّہ میرکو ہم بے اختیار پایا
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
اتنا نہ تجھ سے ملتے نَے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اُس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرسے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...