وسیم جبران ۔۔۔ دو غزلیں

فتنہ ہے، تعصب ہے، بندوق ہے ، گولی ہے
اِس شہر میں ہر لحظہ بس خون کی ہولی ہے

اک نام لیا اُس نے کچھ ایسی محبت سے
گویا مرے کانوں میں شیرینی سی گھولی ہے

پت جھڑ کی وہی شامیں، آنسو بھی نظر آئے
یادوں کی کوئی کھڑکی جب آنکھ نے کھولی ہے

اک بار نظر بھر کے دیکھا ہے مجھے اُس نے
اک آن میں یہ ہستی مخمور ہے ڈولی ہے

میرا نہ تھا وہ کل بھی، سمجھا ہے یہ اب میں نے
ہر بات محبت کی ادراک میں تولی ہے

جبرانؔ سیہ شب میں وہ مل نہ سکا ہم کو
ہر کنج میں ڈھونڈا ہے، ہر راہ ٹٹولی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت مشکل تھا اب جو فیصلہ کرنے لگا ہوں
میں اپنے آپ کو خود سے جدا کرنے لگا ہوں

جو سچائی سنو گے تو بہت تڑپو گے تم بھی
میں دل کی بات میرے ہمنوا کرنے لگا ہوں

تعلق کچھ تو باقی ہے ہمارے دل کا اب بھی
میں تنگ آ کر جو اب تم سے گلہ کرنے لگا ہوں

اسے تخریب سمجھو یا بغاوت کچھ بھی کہہ لو
قفس کو توڑ کر پنچھی رہا کرنے لگا ہوں

مسیحا تو نہیں ہوں جو بھروں میں زخم دل کے
میں ہمدردی سے ہی سب کا بھلا کرنے لگا ہوں

بھلا خاموش اب کیسے رہیں گے لوگ سارے
زباں احساس کو میں اب عطا کرنے لگا ہوں

ہمارا ذہن ہے جو اب بھی خوگر مصلحت کا
مگر میں دل کو اپنا رہنما کرنے لگا ہوں

مجھے انصاف کی امید ہے اپنے خدا سے
میں دشمن کے لیے بھی اب دعا کرنے لگا ہوں

عدالت میں ہی مارا جائوں گا جبران ؔ میں بھی
کہ میں سقراط ہوں سچ سے وفا کرنے لگا ہوں

Related posts

Leave a Comment