وسیم جبران ۔۔۔ ویرانی سے خوف آتا ہے

ویرانی سے خوف آتا ہے دل میں کتنا سناٹا ہے ناممکن ہے جس سے ملنا دل بھی ملا تو کس سے ملا ہے میرے لبوں پر پھول کھلے ہیں جب بھی تیرا نام لیا ہے ہاتھ اٹھائے ہوں گے اُس نے رنگِ شفق یا رنگِ حنا ہے آفت آکر ٹل جائے گی ماں کے لب پر حرفِ دعا ہے اب تک دل میں خلش ہے اس کی اب تک دل جو کہہ نہ سکا ہے اب جو جلتا ہے سینے میں تیری یاد کا وہ شعلہ ہے جبرانؔ اُس کا…

Read More

وسیم جبران ۔۔۔ اعتراف

اعتراف ۔۔۔۔۔ کیا تمہیں بھی یاد ہے ہم نے بھی تو پکڑی تھیں رنگ رنگ تتلیاں چند لمحوں کے لیے ہاتھ میں جو رہتی تھیں ہم یہی سمجھتے تھے مل گئی ہو جس طرح ہم کو ساری کائنات میری مٹھی میں دبا تھا تمہارا پیار بھی پر نجانے کس طرح تتلیوں سا پیار وہ قید رکھنے کے لیے بند تھی جو آج تک میری مٹھی کھل گئی

Read More

وسیم جبران ۔۔۔ دو غزلیں

فتنہ ہے، تعصب ہے، بندوق ہے ، گولی ہے اِس شہر میں ہر لحظہ بس خون کی ہولی ہے اک نام لیا اُس نے کچھ ایسی محبت سے گویا مرے کانوں میں شیرینی سی گھولی ہے پت جھڑ کی وہی شامیں، آنسو بھی نظر آئے یادوں کی کوئی کھڑکی جب آنکھ نے کھولی ہے اک بار نظر بھر کے دیکھا ہے مجھے اُس نے اک آن میں یہ ہستی مخمور ہے ڈولی ہے میرا نہ تھا وہ کل بھی، سمجھا ہے یہ اب میں نے ہر بات محبت کی ادراک…

Read More

وسیم جبران۔۔۔ آخری بات

میں اسٹیشن پہ پہنچا تھا اُسے رخصت جو کرنا تھا کبھی ہر وقت یوں ہی بات کرتی، مسکراتی، شوخیاں کرتی عجب لڑکی خدا جانے وہ کیوں خاموش تھی اتنی وہ سپنوں سے بھری آنکھیں بڑی بے چین تھیں اس دن گلابی لب لرزتے تھے اگرچہ کپکپاتے تھے مگر خاموش رہتے تھے مرے دل میں خیال آیا کہ میں کہہ دوں سنو، جاناں! یہ اسٹیشن نہ یوں تم چھوڑ کر جائو یقیں مانو کہ اب ہر پل مجھے تم یاد آئو گی مگر جب کہہ نہیں پایا تو الجھن بڑھ گئی…

Read More