وسیم جبران ۔۔۔ ویرانی سے خوف آتا ہے

ویرانی سے خوف آتا ہے
دل میں کتنا سناٹا ہے

ناممکن ہے جس سے ملنا
دل بھی ملا تو کس سے ملا ہے

میرے لبوں پر پھول کھلے ہیں
جب بھی تیرا نام لیا ہے

ہاتھ اٹھائے ہوں گے اُس نے
رنگِ شفق یا رنگِ حنا ہے

آفت آکر ٹل جائے گی
ماں کے لب پر حرفِ دعا ہے

اب تک دل میں خلش ہے اس کی
اب تک دل جو کہہ نہ سکا ہے

اب جو جلتا ہے سینے میں
تیری یاد کا وہ شعلہ ہے

جبرانؔ اُس کا ملنا بچھڑنا
کوئی سپنا سا سپنا ہے

Related posts

Leave a Comment