وسیم جبران۔۔۔ آخری بات

میں اسٹیشن پہ پہنچا تھا
اُسے رخصت جو کرنا تھا
کبھی ہر وقت
یوں ہی بات کرتی، مسکراتی، شوخیاں کرتی
عجب لڑکی
خدا جانے وہ کیوں خاموش تھی اتنی
وہ سپنوں سے بھری آنکھیں
بڑی بے چین تھیں اس دن
گلابی لب لرزتے تھے
اگرچہ کپکپاتے تھے
مگر خاموش رہتے تھے
مرے دل میں خیال آیا
کہ میں کہہ دوں
سنو، جاناں!
یہ اسٹیشن نہ یوں تم چھوڑ کر جائو
یقیں مانو کہ اب ہر پل
مجھے تم یاد آئو گی
مگر جب کہہ نہیں پایا
تو الجھن بڑھ گئی دل کی
بہت مجبور تھا میں بھی
کہ اُس سے پوچھ ہی بیٹھا
یہ اتنی خامشی کیوں ہے؟
اگر ممکن ہو تو کہہ دو
کوئی تو بات ہے ایسی
جو تم کو مجھ سے کہنی ہے
تو وہ چونکی
مجھے دیکھا
پھر اپنی مرمریں سی انگلیاں آپس میں الجھا کر
ذرا سا سوچ کر بولی
’’خدا حافظ‘‘

Related posts

Leave a Comment