حامد یزدانی ۔۔۔ دیوار

دیوار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نومتحد جرمن شہر برلن کےبرینڈن برگ گیٹ پر اس دن عجب میلے کا سا سماں تھا۔ مشرقی اورمغربی جرمنی کا اتحاد اسی سال موسمِ خزاں میں تو ہوا تھا۔ہم اس وقت شہر کی مشرقی جانب کھڑے تھے یا مغربی ؟ میں اپنے کم گوجرمن نژادہم۔کار ہیرشمٹ ؔ سے پوچھنا چاہتا تھا۔ مگر پھر ایک تویہ سوچ کر چپ ہو رہا کہ کیا فرق پڑتا ہے اب تو یہ ایک ہی ملک اور ایک ہی شہر ہے اور دوسرے یہ کہ میں اپنے ساتھی کو یہ تاثر کیوں دوں کہ میں اُس سے کم جانتا ہوں یاوہ مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔
اٹھارہویں صدی میںیونانی طرزپرتعمیر کیا جانے والا چھ بلند محرابی ستونون پہ استوارچھبیس میٹر اونچا اور ساڑھے پینسٹھ میٹر چوڑا برینڈ ن برگ گیٹ ہمیشہ سے اس تاریخی شہر کی پہچان رہا ہے۔ قدیم برلن کا یہ داخلی دروازہ جس نے کئی تاریخی المیے سہے اور جو ۱۹۶۱ سے ۱۹۸۹ تک برلن اور جرمنی کی تقسیم کی یاد دلاتا رہا تھا اب جرمن اتحاد کی علامت پر اِترا رہا تھا۔ گیٹ کے اوپر رتھ پر سوار امن کی دیوی جانےاب کہاں اُڑنے کو پر تول رہی تھی۔
میں ہیرشمٹ کے ساتھ ایک تقریب میں شرکت اورکچھ اہم ثقافتی انٹرویوز کرنے کے لیے برلن آیا تھا۔کام سے فارغ ہوکرشہر کے اہم مقامات دیکھنے کا موقع بھی مل گیا تھا۔ ہیر شمٹ نے میرا ساتھ دینے کی ٹھانی۔ ہم نے ایک ہی دن میںچھ عجائب گھروں پر مشتمل’ عجائب گھروں کا جزیرہ‘ دیکھا ۔وہاں ایک اسلامی میوزیم بھی تھاجس میں مغل دور کے بہت سے نوادرات موجود تھے۔ سامنے کی دیوار پر ہاتھ سے بنا ایک رنگ دار قدیم نقشہ آویزاں تھا جس میں دریائے راوی اور شہر لاہور صاف دکھائی دیتے تھے۔ میں نے اس نقشے کی تصویر اپنے کیمرے میں محفوظ کرلی تھی۔ پھر برلن کا مشہور کلیسا ’برلینر ڈوم‘ دیکھا جس کا گنبد دور سے دکھائی دے رہا تھا۔شہر کی مشرقی جانب سورج کی روشنی اور سائے سے دنیا بھر کے اوقات بتانے والی گھڑی بغیر ٹِک ٹِک کے گھوم رہی تھی۔پھردریا کی سیر کی۔مشرقی حصے میںکمیونزم کی علامتوں کو ختم کیے جانے کا سلسلہ دیکھا۔لینن کے سرخی مائل پتھر سے بنےقدِ آدم مجسمے کو اکھاڑ کرایک کھلی گاڑی میں کسی ان جان مقام پر منتقل کیا جارہاتھا۔کہاں؟ میں نے جاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔پھر ہم نے ایک اطالوی ریستوران سے ٹونا مچھلی والا پیزا کھایا ۔ اس سب کے بعد اب ہم برلن کے اہم ترین تاریخی مقام یعنی برینڈن برگ گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔
اس سڑک پر ٹریفک نہ تھی۔ لوگ بس پیدل ہی آ جارہے تھے یا کہہ لیجیے کہ گھوم پھررہے تھے۔کوئی گٹار بجا رہا تھا اور کوئی دھاتی ڈھول پیٹ رہا تھا۔کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاںشاید اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے رولر بلیڈز کے کرتب دکھا تےہوئے فٹ پاتھ اور سڑک پر اچھل کود کررہے تھے۔ جشن کے بعد کا ماحول تھا۔ سرکاری تقریبات تو کب کی ختم ہو چکی تھیں ۔ اب تو عوامی سلسلہ چل رہا تھا۔سب پرجوش اور خوش دکھائی دیتے تھے۔
فٹ پاتھ پر یہاں وہاں لوگوں نے سوونئرز کی اور یادگاری تحائف کی فرشی دکانیں سی سجا رکھی تھیںجن میں دیگر اشیا کے ساتھ دیوارِ برلن کے رنگین ٹکڑے بھی رکھے تھے۔ کنکریٹ کے چھوٹے بڑے رنگین ٹکڑے۔ کچھ پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند اور کچھ شیشے کے ڈبوںمیں۔ ان میں سیاحوں کی دل چسپی دیکھنے کے لائق تھی۔ ایک ایسی ہی سرِ راہ سجی دکان میں سامان بیچنے والا نوجوان سیاحوں کو دیوار کے ٹکڑے دکھا کر کچھ بتا رہا تھایاشاید کچھ سمجھا رہا تھا۔ سر اور ہاتھ ہلاہلا کر۔چلتے چلتے ہم بھی پاس پہونچ گئے ۔
میں نے دیکھا کہ بائیس چوبیس سال کے اس خوش شکل نوجوان نے سامنے پلاسٹک کازرد چوکور ٹکڑا بچھا رکھا تھا جس پردیوارِ برلن کے بارہ ٹکڑے رکھے تھے۔ میں ابھی ان ٹکڑوں کو دور ہی سے دیکھ رہاتھا کہ ہیرشمٹ نے ایک ٹکڑا خرید بھی لیا، پانچ مارک میں۔ٹکڑا انہوں نے احتیاط سے اپنے دستی تھیلے میں رکھا اورپھرمجھے دیکھ کر مسکرا نے لگے ۔ شاید دیکھنا چاہتے ہوں کہ تیسری دنیا کا یہ’ غریب باشندہ‘ جرمن دیوار کے لیے پیسے خرچ کرے گا یا نہیں؟شاید ان کے مسکرانے کا یہ مقصد نہ ہو بلکہ کچھ اور ہو جیسے خوب صورت ترین ٹکڑا خرید لینے کی مسرت یا شاید وہ یونہی مسکرارہے ہوں۔شاید۔۔۔
’’آپ کتنے ٹکڑے ملنا مانگیں گے؟‘‘۔دکان والے لڑکے کی ٹوٹی پھوٹی جرمن نےمیری بے تکی سوچ کو بھی منقطع کردیا تھا۔
’’ آپ کتنے ٹکڑے لینا چاہیں گے؟‘‘ میں نے جرمن زبان میں درستی کرتے ہوئے کہا۔پھراس کی مسکراتی حیرت کو نظر اندازکرتے ہوئے اردو میںپوچھا:
’’ پاکستان سے ہوکیا؟‘‘
مجھے مصروف دیکھ کر ہیرشمٹ ٹہلتے ہوئے ساتھ والی فرشی دکان کی طرف قدم بڑھاگئے تھے۔
’’ جی، جی۔۔۔اور آپ بھی؟ ظاہر ہے آپ بھی وہیں سے ہیں، میں جان گیا سر جی۔ سمارٹ ہوں میں۔‘‘ دائیں ہاتھ سے کچھ بھورے ، کچھ سنہری سے بال ماتھے سے ہٹاتے ہوئے اس نے کہا۔
’’ تمہارے بالوں کا یہ ملا جلا رنگ دل چسپ ہے۔۔۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
’’ میرے اصل بال تو ویسے بھورے ہی ہیں۔ یہاں آکر انہیں تھوڑا گولڈن کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ جرمنوں جیسا نظر آؤں۔جتنا اِن کے قریب ہوں گے اتنا ہی جلدی قبول کرلیے جائیں گے۔ نہیں کیا؟ وہ کہتے ہیں نا جیسا دیس ویسا بھیس۔آپ بھی تو پورے گورے ہی لگتے ہیں سر جی۔اور پھرآپ کی توجرمن بھی اچھی ہے۔ ماشااللہ۔‘‘
’’ شکریہ، تم باتیں خوب کرلیتے ہو۔‘‘ میں نے اپنی تعریف پر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ جی بس اللہ کا کرم ہے۔سر جی، آپ کب سے ہیں یہاں؟ اتنی اچھی زبان کیسے سیکھی؟ ضرورآپ کی گرل فرینڈ یا بیوی جرمن رہی ہوگی! سنا ہے ایسے زبان سیکھنا آسان ہوجاتا ہے۔اور شہریت حاصل کرنا بھی۔ہم بھی تلاش میں ہیں۔سیاسی پناہ گزینوں کی زندگی آسان نہیں سر جی۔ ویسے سوئمنگ پول کی رکنیت بھی لی ہے۔شاپنگ مال بھی جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی مل ہی جائے گی۔ پہلوں کو ملی ہیں نا۔تو آپ کیسے آئے تھے جرمنی ؟‘‘ وہ تیز تیز بول رہا تھا۔ شاید کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرلینا چاہتا تھا۔شاید وہ اپنی عادت کے مطابق ایسے بات کرتا ہو۔ شاید۔۔۔لیکن میں خواہ مخواہ اندازے کیوں لگانا شروع کردیتا ہوں۔شاید اس لیے کہ۔۔۔
’’ کیا سوچ رہے ہیں سر جی؟‘‘ اس کا سوال مجھے پھر واپس فٹ پاتھ کے یقین پر لے آیا تھا۔
’’ کچھ نہیں۔ہاں میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ میرا جرمنی آنے کاسفرخاصاغیر دل چسپ تھا۔افسوس،اس پر کوئی سفرنامہ نہیں لکھا جاسکتا۔لاہو ر سے کراچی پی آئی اے کے طیارے میں اور کراچی سے فرینکفرٹ جرمن ائر لائن لُف تھانزا کے جہاز میں۔فرینکفرٹ سے براستہ ریل کولون۔جرمن دوست ضرور ہیںمیرے مگر بیوی پاکستانی ہے۔ مال شاپنگ کے لیے جانا پڑتا ہے اور سوئمنگ پول کی رکنیت میں نے لی نہیں۔پانی سے میری بنتی نہیں ۔ آپ پاکستان میں کہاں سے ہیں؟ پنڈی سے ۔۔۔؟۔‘‘ میں نے اس کے سبھی سوالات کے جواب ترتیب وار دیتے ہوئے اورمسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ نہیں سرجی پنڈی سے نہیںمیں توایبٹ آباد کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤںبانڈی ڈوراں سے ہوں۔۔۔فضل نام ہے میرا‘‘۔ وہ بولا
’’بانڈی ڈوراں !؟ ‘‘ میں نے حیرت سے دوہرایا۔
’’ جی وہیں کا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کیا میرے گاؤں کو؟ کیسے جانتے ہیں آپ؟ وہ تو بالکل چھوٹا سا گاؤں ہے ایبٹ آباد سے ہٹ کرسکندرآباد سے اُوپر۔۔۔‘‘ فضل جوش سے کہہ رہا تھا۔
’’ہاں اوپر پہاڑی پر۔ ایک ہی ویگن ہے اوپر نیچے آنے جانے کے لیے۔نیچے سڑک کے ساتھ ہی سرکاری ہسپتال کی عمارت اور اوپر گاؤں میں چند گھر، ایک سکول اور کچھ خالی جگہ۔ ہے نا؟‘‘ میں نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ تو۔۔۔!‘‘
’’ میں ایک تعلیمی دورے پر وہاں گیا تھا۔ایک تحقیقی مقالہ لکھنا تھا جدت اور قدامت کے دوراہے پر کھڑے کسی علاقے پر۔مجھے یاد ہے ایبٹ آباد میں مقامی میڈیکل کالج کے سامنے ایک یوتھ ہاسٹل میں ٹھہرے تھے ہم سب صوبائی یونی ورسٹی کے طلبا۔۔۔‘‘
’’ میرا خواب تھا جی میڈیکل کالج جانے کا جو پورا نہ ہو سکا۔بس حالات ہی ایسے بنے کہ نکلناپڑاسب کچھ بیچ میں چھوڑ چھاڑ کے۔ایبٹ آباد توخیر بہت مشہور شہر ہے۔‘‘
’’ ہاں بالکل، دد ہفتے ہم وہاں ٹھہرے تھے۔ ایک روز ایبٹ آباد کے کسی بازار سے مشہور قسم کے چپلی کباب کھاکر ہم ائر مارشل اصغر خان سے ملنے کی خواہش لیے ان کی کوٹھی پربھی گئے تھے مگر وہاں گیٹ پر بہت سے سپاہی تعینات تھے۔ ائر مارشل صاحب گھر پر نظر بند تھے اُن دنوں۔۔۔‘‘
’’ ریٹائرڈ ائر مارشل ‘‘ ۔فضل نے جلدی سے میری درستی کی۔
’’ہاں، ہاں، ریٹائرڈ ائر مارشل صاحب‘‘۔ میں نے کھسیانا ہوکر کہا تھا۔’’ خیر،ہم تودور ہی سے واپس چلے آئے تھے۔ڈر رہے تھے کہ پاس جانے پر کہیں دھر ہی نہ لیے جائیں۔فوجی حکومت تھی بھائی۔ لیکن تم بہت بہادر ہو۔اتنے ملکوں اور حکومتوں کو کام یابی سے چکمہ دیتے ہوئے اتنی دور آپہونچے۔‘‘
’’ حالات بہادر بنا دیتے ہیں، سرجی۔ زندگی سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوئی دیوار جو آج میںزمیں پر رکھ کر بیچ رہا ہوں ایک دن اسے پار کرنے کے لیے اپنی جان پر کھیلنا پڑا تھا۔‘‘وہ کہہ رہا تھا۔
’’ تو کیا تم نے ٹرین نہیں لی اِدھر آنے کے لیے!؟‘‘میں نے پوچھا
’’ وہ ایجنٹ کا بچہ کئی روز کے سفر کے بعد ترکی اور مشرقی یورپ سے ہمیں کسی صورت مشرقی برلن تک لے آیا تھا۔اور راستہ بھر تو یہی کہتا رہا تھا کہ بس اِدھر سے ایک سٹاپ سے ٹرین پر بیٹھو گے اور کچھ ہی دیر میں اُدھر مغربی سمت اتر جاؤگے۔وہاں پہونچتے ہی اپنے پاسپورٹ پھاڑ کراسٹیشن کے واش روم میں بہا دینا اور باہر نکل کر سیاسی پناہ کی درخواست دے دینا۔مگر وہ خبیث اچانک ہی غائب ہوگیا ہمیں چھوڑ کر۔مشرقی یورپ کا باشندہ تھا وہ ۔ شاید ہنگری کا یا شاید پولینڈ کا۔ یہ مشرقی یورپ کے لوگ بڑے فراڈ ہوتے ہیں سر جی۔ بس پھرکسی نہ کسی صورت شہر سے دور جاکر دیوارپھلانگنے کا منصوبہ بنایا۔اتنی اونچی اورپکی دیوار ! میرا دوست علی توکہتا تھا کہ یہ ضرور جنّات نے بنائی ہوگی۔حالانکہ جنّات نے تو دیوارِ چین بنائی تھی۔گاؤں میں تویہی سنتے تھے ہم۔‘‘
میں اس کے بھولپن میں تصنع کی مقدار کو جانچ رہا تھا۔
’’ تو تم نے جنّات کی بنائی دیواراتنے آرام سے پھلانگ لی۔تم تو بہت بہادر ہو بھئی۔۔۔۔‘‘میں نے بدستور مسکراتے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
’’آرام سے کہاں سر جی۔بڑی مشکل سے پار کی۔ہمارے ایک ساتھی کو گولی بھی لگ گئی تھی۔اس دیوار کے ٹکڑوں پر چمکتے رنگوں میں کسی کے خون کا رنگ بھی ہو سکتا ہے۔اصل خون کا۔دیوار کیا تھی سر جی۔ نِری بدعا تھی کسی کی جو قبول ہو گئی تھی۔۔۔پرمجھے میری امی کی دعا لگ گئی تھی اس لیے میں بچ گیا اور میرے ساتھ میرے دو دوست بھی۔۔۔بس ہم بچ گئے۔ اللہ کا شکر ہے۔‘‘
اب میں اس کی باتیں بھی سُن رہاتھا اور ’ہُوں، ہُوں‘‘ کرتے ہوئے دیوارِ برلن کے ٹکڑوں کا جائزہ بھی لیتا جاتا تھا۔
’’آپ کیا دیکھ رہے ہیں ان چیزوں کو؟کچھ لیں گے کیا؟‘‘ اچانک اس نے پوچھاتھا۔
’’ہاں، میں سوچ رہا ہوں یہ دیوارِ برلن کا قدرے بڑا ٹکڑا۔۔۔‘‘
’’کیا کریں گے آپ وچھوڑے کی یہ نشانی خرید کر۔چھوڑیں پرے، سر جی۔یہ وچھوڑے ڈالنے والی شے نہ ہی ساتھ لے جائیں تو اچھا ہے۔‘‘ اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا تھا۔
’’یہ تو ایک تاریخی شے ہے۔ایک یادگار کے طور پرسجا کر رکھوں گا اس وچھوڑے کی نشانی کو۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’وچھوڑا تو دکھ دیتا ہے نا سر جی اور دکھ کی یاد دلانے والی نشانی رکھ کر دکھی کیوں ہونا، خواہ مخواہ۔‘‘ اس کے لہجے میں اداسی در آئی تھی۔ اپنوں سے دوری کے باعث اس کی اداسی کا سبب جاننامیرے لیے مشکل نہ تھا۔اس بار مجھے اپنی سوچ پر یقین تھا۔
’’تو کیا تم سمجھتے ہو کہ جدائی کی یہ علامت جدائی ڈالنے کی کوئی پراسرار قوت رکھتی ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے جانے کیوں بے ساختہ میری ہنسی نکل گئی تھی۔
’’دیواریں تو ہمسائے کو ہمسائے سے دُور ہی کرتی ہیں ۔۔۔‘‘ وہ بولا تھا۔
’’ایسا نہیںہے، دیواریں حفاظت بھی تو کرتی ہیں۔ہمیں حدود کا احساس بھی دلاتی ہیں۔‘‘
’’ سرجی۔ یہاں کی بجائے اگر یہ دیوارِ برلن انڈیا اور پاکستان کے درمیان بنا دی جاتی تو کیسا رہتا؟کیسا آئیڈیا ہے ویسے؟‘‘
’’ ان دو پڑوسیوں کے درمیان تو پہلے ہی بہت تلخی بھرے فاصلے ہیں۔سرحدیں بھی فاصلاتی دیواریں ہی تو ہیں۔ ‘‘
’’ تو نہیں ہونی چاہئیں دیواریں؟‘‘
’’ نہیں ، میں یہ نہیں کہہ رہا۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ دیواریں اتنی اونچی نہیں ہونی چاہئیں کہ ہمسائے سے بچنے کے چکر میں ہم ہَوا کے جھونکوں ہی سے محروم ہوجائیں‘‘
’’ اب سمجھا۔ آپ دیوار تو چاہتے ہیں لیکن چھوٹی تاکہ ہمسائے سے سلام دعا بھی لے سکیں اور تازہ ہوا کے مزے بھی‘‘۔
’’رابرٹ فراسٹ کو پڑھا ہے تم نے؟مشہور امریکی شاعرگزرا ہے۔اس کی ایک نظم ہے ’ مینڈنگ وال‘۔۔۔دوہمسایوں کی مشترکہ زمین پربنی دیوارکو مرمت کرنے کی ضرورت کے بارے ہی میں ہے۔۔۔‘‘ میں کہتا چلا گیا تھا۔
’’ تو وہ امریکی شاعر صاحب بھی یہی کہتاہے کہ دیواریں بنانی چاہئیں؟‘‘ اس نے معصومیت سے استفسار کیا تھا۔
’’نہیں،وہ تو دیوار کو غیرضروری سمجھتا ہے مگر اس کا ہمسایہ دیوار کو اچھی ہم سائیگی کی ضمانت قرار دیتا ہے۔‘‘
ؔؔ’’توپھر نہیں بناتے وہ دیوار۔ ہے نا؟‘‘
’’نہیں، یہ اچھا ہم سایہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور اختلافِ رائے کو بالائے طاق رکھ کر دیوار مرمت کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے‘‘۔
’’تواپنی بات منوا نہیں پاتا وہ اپنے ہم سائے سے۔ تو ڈاہڈا ہوا اس کا ہم سایہ۔‘‘
’’بعض اوقات اپنا موقف بتا دینا ہی کافی ہوتا۔اختلاف ہوتے ہوئے بھی ہم مل کر چل سکتے ہیں۔ زبردستی بات منوانا ضروری نہیں ہوتا۔اس کا ہم سایہ دیوار کے فائدے کا قائل تھا سو اس نے اس کی خواہش کا احترام ضروری سمجھا۔۔۔ویسے بھی نظم کو کئی ڈھنگ سے دیکھا جاسکتا ہے۔اچھی تخلیق ایک سے زیادہ رنگ رکھتی ہے اور پھر۔۔۔۔‘‘
’’رنگ سے میرا خیال اس ٹکڑے کی طرف چلا گیا ہے۔ یہ والا ٹکڑا لے لیں آپ دیوار کا۔نیلا، سرخ اور ہلکا زرد۔۔دیکھیں رنگ اِس میں بھی ڈھیروں ہیں‘‘۔اس نے بات کا رُخ موڑتے ہوئے کاروباری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا۔
’’ ٹھیک ہے ۔ یہ پیک کردو۔اور ہاں، مجھے دو ٹکڑے اور چاہئے ہوں گے اپنے دو دوستوں کے لیے۔ اگر یہ سفر سرکاری نہ ہوتا تو آج وہ دونوں میرے ساتھ ہی ہوتے یہاں۔ ہم اکٹھے ہی سیر و تفریح کرتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ کے دوست ہیں۔ بڑاسہارا ہوجاتا ہے ان کا۔اکیلے بندے کی بھی کوئی زندگی ہے ، سر جی !۔۔۔ اور وہ بھی پردیس میں۔‘‘
’’ یہ ملک میرے لیے پردیس نہیں۔ میں اس کا شہری ہوں۔ ٹیکس دیتا ہوں۔ اپنا گھرہے، انتخابات میں وو ٹ دینے کا حق رکھتاہوں۔ البتہ یہ بات تم نے درست کہی کہ دوستوں کا سہارا بہت ہوتا ہے۔ ان کے بغیر میں واقعی ادھورا سا محسوس کرتا ہوں۔‘‘
’’ آپ کے وہ دوست جرمن ہیں کیا؟‘‘ اس نےشیشے کے چھوٹے سے کیس میں بنددیوارِ برلن کے ٹکڑے کو پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے ہوئے اور پاس سے گزرتے ایک جوڑے کو سر کی جنبش سے ’آداب‘ کہتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
’’ نہیں۔ وہ یہاں کے شہری نہیں۔ مہمان ورکرز ہیں۔ انہیں ویزے وغیرہ کی مشکل نہیں۔کچھ سال سے یہیں ہیں۔اپنے وطن آتے جاتے رہتے ہیں۔بہت اچھے ہیں۔بس فیملی ممبرز ہی کی طرح ہیں۔‘‘
’’ تواپنے ان دوستوںکے لیے چاہئیں آپ کو دو ا ور۔۔۔! تو سر جی آپ یہ سفید اور مالٹے رنگ والا اور وہ ہرا اور بینگنی والا، میرا مطلب ہے سبز اور قرمزی والا۔ٹھیک کہا نا میں نے؟وہ دو لے لیں۔‘‘ فضل نے مزید دو ٹکڑو ں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
وہ ٹکڑے کچھ زیادہ بڑے تو نہ تھے مگر رنگ دار خوب تھے۔ کچھ آدھے ادھورے ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔ کسی گریفیٹی یا کسی نعرے کا حصہ رہے ہوں گے کبھی۔ اب ان کو با معنی ہم نے خود بنانا تھا۔
’’کیا انھیں شیشے کے کیس سے نکال کر دیکھ لوں؟‘‘میں نے پوچھا
نہیں سر جی، بند ہی رہنے دیں ابھی انہیں۔‘‘وہ منع کرتے ہوئے بولا
’’ اچھا ٹھیک ہے ۔ لیکن یہی والے کیوں؟‘‘میں نے پوچھا
’’ سارے ٹکڑے تھوڑی اصلی ہوتے ہیں، سر جی!آپ تو میرے گرائِیں میرا مطلب ہے میرے ہم وطن ہیں آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا‘‘۔
فضل نے شرارت سے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب۔۔۔!؟‘‘
’’ چھوٹا موٹافن کار میں بھی ہوں، سرجی۔ پینٹر کا نہ سہی کارپینٹر کابیٹا تو ہوں نا۔رنگ رُنگ کر لیتا ہوں کچھ میں بھی‘‘۔
سپرے پینٹ کی بوتل دکھاتے ہوئے وہ کھلکھلا کر ہنس دیاتھا۔اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ہیرشمٹ نے مجھے آواز دی کہ گاڑی ہمیں لینے کو پہونچ چکی تھی۔مجھے جلدی کرنا پڑی ۔ مجھے یاد آگیا تھا کہ کولون واپسی سے پہلے ہمیں ایک نیوز ایجنسی کے بیورو چیف سے بھی ملنا تھا۔ میں نے ان تین ٹکڑوں کے لیے پندرہ مارک ادا کیے اوریہ جانتے ہوئے کہ ہم پھر کبھی نہ ملیں گے پھر سے ملنے کی امید کے رسمی جملوں کا تبادلہ کرتے ہوئے ہیر شمٹ کی طرف بڑھ گیا۔

گاڑی کی طرف جاتے ہوئے ہیرشمٹ پوچھنے لگے:
’’کیا باتیں ہوئیں اس نوجوان سے؟ ‘‘
’’ہم دنیا کی کچھ اہم دیواروں کے بارے میں بات کررہے تھے۔‘‘ میں نے بات گول مول کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’اہم دیواروں کے بارے میں؟ تو ضرور یروشلم کی تاریخی دیوارِ گریہ کا ذکر بھی ہوا ہوگا۔نہیں کیا؟‘‘ ہیر شمٹ نے میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ ارے، اس کا توتذکر نہیں ہواحال آں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ دیوار بھی بہت اہم ہے۔کوئی ایک سو ساٹھ فٹ طویل اور ساٹھ باسٹھ فٹ اونچی یہ دیوار بیت المقدس کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تینوں بڑے مذاہب کو ماننے والوں کو عزیز ہے۔‘‘میں نے اپنی دل چسپی اور معلومات بکھیری تھیں۔
’’طوالت اور بلندی سے زیادہ اہم اس کا تاریخی ہونا ہے اور پھر لوگوں کی عقیدت۔۔۔میں نے یہودیوں کو آہ وبکا کرتے ہوئے بھی خود دیکھا ہے وہاں اور اس دیوار کے شگافوں میں اپنی دعاؤں کی پرچیاں ٹھونستے ہوئے بھی۔‘‘ ہیر شمٹ نے کہا تھا۔
’’آپ کو اس ثقافت سے خاصی دل چسپی ہے۔میں جانتا ہوں۔ اسی شوق میں آپ نے عبرانی زبان بھی تو سیکھی تھی۔‘‘ میں نے کہا
’’ جی، ٹھیک کہا آپ نے۔اسی لیے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ آپ کے پاس دیوار کا جو بڑا ٹکڑا ہے اس پرعبرانی زبان کا ہی ایک لفظ لکھا ہوا ہے۔‘‘
’’واقعی!؟ میں تو سمجھاکوئی تجریدی فن کاری ہے یہ۔کیا لکھا ہے یہ؟‘‘
’’ گِریہ۔۔۔!‘‘
’’کیا؟ عجیب بات ہے۔ یہاں تو تاریخی دیواریں مدغم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ایسا ہی لگتا ہے۔ لیکن یہ بتائیں وہ لڑکا کچھ اصلی نقلی کی بات بھی کررہا تھا۔کچھ ایسے الفاظ میں نے سنے تھے۔کیا کہہ رہا تھا وہ؟‘‘۔
ہیرشمٹ کو ایک تو ویسے ہی زبانیں سیکھنے کا شوق تھا دوسرے وہ کچھ عرصہ ہندوستان میںبھی رہ چکے تھے ۔ اس لیے کچھ کچھ اردو ہندی سمجھ لیتے تھے۔
’’ وہ کہہ رہا تھا اس کے پاس دیوار کے سبھی ٹکڑے اصلی نہیںالبتہ جو ٹکڑے اس نے مجھے دئیے ہیں وہ اصلی ہیں۔اور یہ کہ میں اس کا ہم وطن ہوں اس لیے اس نے۔۔۔‘‘
’’ خوب۔۔۔تو وہ ہم جرمنوں کو بے وقوف بنا نا جائز سمجھتا ہے۔ اس لیے آیا ہے وہ یہاں!؟۔‘‘ انھوں نے اپنے ٹکڑے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اور خفگی کے لہجہ میں کہا۔
’’ شاید وہ ہر خریدار کو ایسا ہی کچھ کہتا ہو اپنی دکانداری چمکانے کے لیے۔ ویسے بھی وہاں آپ کے علاوہ شاید ہی کوئی جرمن ہو۔ زیادہ تر تو سیاح تھے مختلف ملکوں سے آئے ہوئے۔‘‘
’’ پھر بھی وہ الّوتو بنا رہا تھا !‘‘
’’ کو ن سا کاروباری ہے جو پوری دیانت داری کا دعویٰ کر سکے!؟‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ہم جرمن بات اور وعدے کے پکے ہوتے ہیں۔‘‘
’’جی بے شک۔۔۔اور پاکستانیوں میں بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔محنتی ہیں، مہمان نواز ہیں اور۔۔۔اور پھر اچھے برے لوگ تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ‘‘ میں نے اپنے لہجہ میں تلخی لائے بغیر دفاعی انداز میں کہا تھا۔جانے کیوں میں نہیں چاہتا تھا کہ انھیں پتہ چلے کہ ان کی بات مجھے ناگوار گزری ہے۔
برلن سےواپسی کا بیشتر سفر بس خاموشی سے گزر گیا۔

کولون پہونچ کر تاریخی دیوارِ برلن کا ایک یادگار رنگین ٹکڑا شیشے کے کیس سے نکال کرمیں نے اپنے اپارٹمنٹ کے ڈرائنگ روم میں کارنس پر سجا لیا ۔اپنے فیملی فوٹو اور آئفل ٹاور کے دھاتی ماڈل کے عین درمیان۔ ویک اینڈ پر میرے دوست راؤؔ اور جوشی ؔ دونوںمیرے ہاں آئے تو اس بارپر تکلف کھانے سے زیادہ انہیں کارنس پر رکھا دیوارِ برلن کا رنگین ٹکڑا پسند آیا۔کھانا کھاتے اورچائے پیتے ہوئے میں نے انھیں سفر کی باتیں بھی سنائیں اور فضل سے اپنی گفتگو کی کچھ تفصیلات بھی۔ وہ خوب محظوظ ہوئے۔بعد ازاں رخصت کرتے ہوئے جب میں نے انہیںشیشے میں بنددیوار کا ایک ایک ٹکڑا تحفتاً پیش کیا تو وہ خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔
ہم تینوں دوست کئی برس سے جرمنی میں اکٹھے تھے۔ کام پر بھی ایک ساتھ ہوتے اورجہاں تک ہو سکے، کام کے بعد بھی۔یورپ بھر کی آوارہ گردی ہم نے مل کر کی۔کئی ایسی مہمات اکٹھے سرکیں جنہیں کرنے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔وہ ہر سال ہی اپنے اپنے ملک جاتے تھے اور چھٹیاں گزار کر لوٹ آتے تھے اور میرے لیے وہاں سے نت نئے قصوں کہانیوں کی سوغاتیں لاتے۔
لیکن اب کے عجیب بات یہ ہوئی کہ ہماری اس ملاقات کے کچھ عرصہ بعد ہی پہلے جوشیؔ اپنے ملک لوٹ گیا کیونکہ اس کے والد کے اچانک گزر جانے سے اس کے گھر والوں کو اس کی بہت ضرورت تھی ۔ رہ گیا راؤؔ تو اس کے ساتھ یہ معاملہ بنا کہ اس بار اس کے ویزہ کی توسیع نہ ہو سکی کیونکہ جرمن اتحاد کے بعد مشرقی جرمنی کے شہریوں کو ملازمتیں دینے کی پالیسی پر عمل درآمد زوروں پر تھا۔ اور یوں راؤؔ بھی مستقلاًاپنے وطن سدھارا۔میں ایک دم ہی تنہا ہوگیا ۔شب و روز کا رابطہ یوں دیکھتے ہی دیکھتے منقطع ہوگیاتھاکہ یقین ہی نہ آتا تھا۔پھر ان سے خط و کتابت کا سلسلہ بھی دھیرے دھیرے معدوم ہوگیا۔ شاید ان کے پتے بھی بدل گئے تھے۔خاموشی آہستہ آہستہ پراسرار اور دبیز تر ہوتی چلی گئی۔
میں اپنے دل کو سمجھانے میں لگا رہتاتھا کہ ہم تینوں بچھڑ چکے ہیں۔اپنے اپنے خطّوں اور اپنی اپنی تنہائیوں میں قید ہو چکے ہیں۔ ایک شام ڈرائنگ روم میں تنہا بیٹھے جب میں نے کارنس کی طرف دیکھاتومجھے صاف لگا کہ دیوارِ برلن کا رنگین ٹکڑا بڑا ہوتاجارہا ہے۔ برلن کو تقسیم کرنے والی فصیل اب ان دیکھے انداز میں میرے اور ددسروںکے درمیان وچھوڑے کی علامت بن کر حائل ہورہی ہے۔جیسے معمارجنّات نے اسے برلن سے اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا ہو۔کسی مقبول بدعا کی طرح۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے بھلا؟ ایسا ہوتا تو دنیا میں کتنے ہی لوگوں نے جو دیوار کے ٹکڑے لیے تھے ان سب کے مابین دیواریں حائل ہوتیں۔ شاید ہوں بھی۔ کیا واقعی!۔۔۔ نہیں نہیںایسا کچھ ہوتا تو میرے یا میرے دوستوںکے ساتھ ہی کیوں ہوتا سب کے ساتھ ہوتا۔۔۔
میں سوچ رہا تھا اور مسلسل بلند ہوتی دیوارپر بکھرے گریہ کے رنگوں میں مجھے اچانک فضل کا مسکراتا چہر ادکھائی دیا۔
’’ سارے ٹکڑے تھوڑی اصلی ہوتے ہیں، سر جی!‘‘
وہ آنکھ مارتے ہوئے فن کارانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment