حامدؔیزدانی ۔۔۔۔ خاموشی چپکے چپکے رونے لگتی ہے

خاموشی چپکے چپکے رونے لگتی ہے
جب بھی خود سے بات کوئی ہونے لگتی ہے

پتّے سرد ہَوا کی لوری کیوںگاتے ہیں
شام جو تھک کر جنگل میں سونے لگتی ہے

وقت کے سُونے ساحل پریادوں کی بارش
رُکتی ہے کچھ دیر کو ، پھر ہونے لگتی ہے

جب بھی زخم کو چھوتا ہوں اس آئینے میں
اک مسکان سے دُوری کم ہونے لگتی ہے

برف میں جب کھو جاتی ہیں لاہور کی یادیں
عمر کہِیں پہچان اپنی کھونے لگتی ہے

کیسے تھے خوددار پرندے! پھر نہیں لوٹے
یہ سُن کر ننھی چڑیا رونے لگتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment