اکرم کنجاہی ۔۔۔ نسائی فکشن کا ارتقا

نسائی فکشن کا ارتقا

داستان، ناول اور افسانہ کہانی کی مختلف شکلیں ہیں، فکری و اسلوبیاتی حوالے سے جن کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں۔طلسماتی فضائیں تشکیل دینے،فوق الفطر ت اور محیر العقل قصے بیان کرنے میں داستان کا ثانی نہیں۔ناول ہمارے ماحول اور معاشرت سے جڑا ہوا ہے۔ وہ جنوں کے بادشاہ، پریوں کے دیس، شہزادوں اور شہزادیوں کی رومانی داستانیں بیان نہیں کرتا بل کہ ہماری اور ہماری عہد کی زندگی کے مثبت و منفی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔افسانہ وحدتِ تاثر کی حامل مختصر کہانی ہے جو ناول کی طرح فکریات کے اجتماع سے بحث نہیں کرتی۔زندگی کے کسی ایک رُخ، ایک پہلو اور ایک نقطۂ نظر کو کبھی سادہ و رواں اسلوب میں اور کبھی علامت و تجرید کے ذریعے۔ کبھی مضبوط پلاٹ اور کہانی پن کے وسیلے سے اور کہیں یک کرداری مکالمے میں۔ داستان کو بحرِ زخائر کہا گیا ہے جس کے مقابلے میں ناول یا افسانہ ندی نالے لگتے ہیں۔ شاید اسی لیے جدید علامتی افسانہ کی اساس بھی بعض اوقات داستانی علائم و رموز پر استوار نظر آتی ہے۔ الف لیلہ، طلسم ہوشربا، آرائش محفل اور باغ و بہار کے اثرات علامت سازی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر داستان بالعموم چھوٹی بڑی کہانیوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اس لیے داستان سے الگ ہوکر بھی کہانی کچھ نہ کچھ داستانی خصائص برقرار رکھتی ہے۔مگر ناول جس طرح اور جس قدراپنے زمانے کی معاشرتی، معاشی اور تہذیبی زندگی کا حقیقت پسندانہ اظہار ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے گوناگوں تجربات و احساسات اور حیات انسانی کے مختلف پہلوؤں کو جس وسعت و گہرائی کے ساتھ پیش کرتا ہے اتنی کسی دوسری اصناف میں ممکن نہیں ہوتی۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ داستان، ناول، افسانہ، ڈراما، تمثیل وغیرہ سب کہانی کی مختلف شکلیں اور کہانی بیان کرنے کے مختلف انداز ہیں۔ گویا ایک درخت کی مختلف شاخیں ہیں۔کہانی کی بنیاد مضبوط واقعات پر استوار ہوتی ہے جس میں بہترین کردار نگاری اہم کردار ادا کرتی ہے جبکہ اس کے برعکس افسانہ لا شعوری و وجدانی کیفیات کا بیان بھی ہو سکتا ہے جوپیچیدہ اور تہہ دار بھی ہو سکتی ہیں۔ یہ کیفیات بالعموم کسی کردار کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے۔ناول فرد، خاندان اور معاشرتی زندگی کی تصویر کشی اور ان سے پیدا ہونے والی مختلف النوع کیفیتوں کی جامع اور بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ معاشرے کے عصری حالات اور اس کے مسائل پر بے باک تبصرہ کرنے کے ساتھ ہی داخلی کشمکش اور نفسیاتی گتھیوں کو یکے بعد دیگرے کھولتا چلا جاتا ہے۔ لہٰذا اپنے اسلوب میں مختلف یا برعکس ہونے کے باوجود بھی اس لحاظ سے یہ زندگی، معاشرہ اور انسان کی ترجمانی اور تفہیم ہی کا ایک انداز ہیں۔
کہانی کہنے کا کمال خواتین میں فطری طور پر موجود ہوتا ہے۔قصے کہانیاں سنانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس طرح سے وہ کہانیوں یا افسانہ نویسی کے ذریعے انیسویں صدی کے آخری حصے میں نظر آنے لگی تھیں، لیکن باقاعدہ طور پر بیسویں صدی کے آغاز سے زیادہ سرگرم ہوئیں۔اگرچہ اُردو ناول کی روایت کا آغاز مردانہ روایت سے ہوا مگر مشرقی فکشن کی روایت کا ذکر کیا جائے تو اِس حوالے سے یہ مغربی فکشن سے مختلف ہے کہ ’’شہر زاد‘‘ سے لے کر ہماری نانی اماں اور پھر نانی اماں سے محمدی بیگم، اکبری بیگم اور عصمت و قرۃ العین سے فہمیدہ ریاض تک خواتین کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے۔الف لیلہ ہمارے داستانی ادب کا نقشِ اولین ہے۔انتظار حسین نے سچ لکھا ہے کہ’’شہر زاد جو دلہن بن کر شہر یار کے محل میں گئی تھی، ہماری ساری نانی اماؤں کی اماں ہے۔ ہاں دلی اور لکھنو میں داستان گوئی کی جو روایت قائم ہوئی وہ مردانہ روایت تھی مگر اُدھر دلی اور لکھنو کا چراغ گُل ہوا اور ادھر ہماری نانی اماں نے سرد موسم میںشام ہوتے ہی بچوں کو لحاف یا رضائی میں ساتھ بٹھایا، لالٹین جلائی، انگیٹھی گرم کی اور کہانی سنانی شروع کر دی۔کسی ملک میں ایک نیک دل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔بیانیہ انداز میں ایسی منظر کشی کہ نو نہالوں کو بادشاہ کے ملک میں لے جاتیں، درمیان میں شہزادہ بھی آ جاتا، شہزادی بھی اور ولن کے طور پر جن یا دیو بھی جلد وارد ہو جاتا۔کوئی نیک دل خدا رسیدہ بزرگ بھی شہزادے کو ضرور ملتے جو اُسے تحفے میں سلمانی ٹوپی، کوئی حیرت انگیز انگوٹھی یا جنوں کو قتل کرنے کے لیے تلوار بھی ضرور دیتے اور آخر میں شہزادہ اپنی ہونے والی دلہن شہزادی کو دیو کی قید سے آزاد کروا لاتا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے۔ ـ ـ‘‘مگر افسوس جیسا شہزاد منظر اپنے مضمون ’’فکشن کی تنقید کے مسائل‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے ناقدین کی سہل انگاری کا اندازہ اس سے کیجیے کہ وہ محنت سے جی چراتے ہیں اور شہرت اور مقبولیت کے لیے آسان اور شارٹ کٹ راستہ تلاش کرتے ہیں اسی لیے وہ لکھنے کے لیے اُردو شاعری(اور وہ بھی غزل) کا انتخاب کرتے ہیں جس کی روایت بہت پختہ ہے۔ شہزاد منظر نے بالکل درست فرمایا اس لیے کہ ایک طرف تو فکشن کی تنقید بہت محدود ہے اور دوسری طرف خواتین فکشن نگاروں پر تو اور بھی کم لکھا گیا ہے خواتین نے نسوانی کرداروں کو مرد ناول نگاروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طور پر پیش کیا ہے بالخصوص گھریلو زندگی پر مردوں کے مقابلے میں ان کی گرفت زیادہ مضبوط ہے اور ان کے لیے ضروری تھا کہ خواتین ناول نگاری کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جائے دوسرے یہ کہ خواتین ادیبوں نے شاعری کے مقابلے میں فکشن کے میدان میں زیادہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور فکشن کو مختلف فکری اور فنی جہتوں سے آشنا کیا ہے۔‘‘
رضیہ سجاد نے تو مردوں کی کردار نگاری میں بھی بے مثال کام کیا تھا۔ساٹھ ستر برس کے بعد بھی اُن کا یہ کارنامہ خوش گوار حیرت میں مبتلا کرتا ہے۔
ناقدین نے ناول سے خصوصی شغف کا اظہار کبھی نہ کیا۔ ڈاکٹر سیدعبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، سید عابد علی عابد، فراق اور مجنوں گورکھپوری،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،سلیم احمد کی مثال دی جا سکتی ہے۔جب کہ غزل، غالب اور اقبال غیرہ پر لکھنے کو کلیشے اور فارمولے موجود ہیں۔ شاید یہ ناول کی تنقید کی تہی دامنی ہی تھی کہ خورشید الاسلام کی صورت میں ایسا نقاد بھی ملتا ہے جو صرف ایک مقالے’’امراو جان ادا‘‘سے امر ہوگیا۔فکشن کی تنقید کی تہی دامنی کی حالت یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر کر ۱۹۶۰ء تک یعنی تیرہ برس میں سید وقار عظیم کی کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔ ہمیشہ داستانوں پر یا افسانے پر لکھا گیا اور ناول کو مسنگ لنک بنا کر رکھ دیا گیا۔ آپ کسی کی چند غزلیں پڑھ کر اُس کی غزلیہ شاعری پر سیر حاصل گفتگو تو کر سکتے ہیں مگر ناول پر کچھ لکھنے سے پہلے ناول کا کلی طور پر مطالعہ ضروری ہوتاہے۔اس لیے فکشن کی تنقید میں ناقد فوراً ایکسپوز ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر ابوللیث صدیقی جیسے تنقید کے بڑے آدمی نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے جدید افسانے کا مطالعہ نہیں کیا اور’’آج کا اُردو ادب‘‘ میں جدید افسانے پر لکھتے وقت 101؍ افسانہ نگاروں پر مشتمل ’’سیپ‘‘کے افسانہ نمبر سے چند افسانہ نگاروں کے نام لکھ دیے ہیں۔
اپنی سبک رفتاری سے ناول کے میدان میں مرد ناول نگاروں کے دوش بدوش خواتین بھی کارہائے نمایاں انجام دینے لگیں۔ مردوں کی طرح خواتین نے بھی ہر قسم کے سماجی، اصلاحی، اخلاقی اور تہذیبی ناول لکھ کر اپنی سماجی کوشش اور اور فن کی پختگی کا لوہا منوایا۔ ابتدائی دور میں ان کے موضوعات میں حصول علم خاص طور پر تعلیمِ نسواں، بچپن کی شادیاں اور اُن سے پیدا شدہ بے شمار مسائل، شرم و حیا کی پاسداری اور عورت کی روایتی وفا شعاری وغیرہ شامل ہوتے۔ ڈپٹی نذیر احمد کی ہم عصر بہت سی خواتین ناول نگاروں نے اپنے ناول کے موضوعات کا دائرہ اخلاقی، اصلاحی اور معاشرتی مسائل تک محدود رکھا تھا لیکن ہندوستان کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی تبدیلیوں سے ان کے موضوعات و مسائل کا دائرۂ کار نہ صرف وسیع ہوتا چلا گیا بلکہ ان خواتین ناول نگاروں کے ناول فنی، فکری اور نفسیاتی اعتبار سے ارتقا کی منزلیں بھی طے کرنے لگے۔ تقسیمِ ہند کے واقعات سے دونوں ممالک کے تقریبا سارے ادیب و فنکار متاثر ہوئے ہیں۔ ہندو پاک کی خواتین ناول نگاروں نے بھی گہرائی سے اُن حادثات کو محسوس ہی نہیں کیا بلکہ انہوں نے فسادات، تشدد و بربریت کے کرب اور اذیت اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ بے شمار مسائل اور بحرانی حالات کی کیفیات کو اپنے ناولوں میں گہرے تاثرات کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ابتدائی دور کے ناول نگاروں نے تعلیم نسواں کی فضا سازگار بنائی، اس سے مستورات میں عزم و حوصلہ اور پروقار زندگی گزارنے کا شعور توپیدا ہوا ساتھ ہی وہ طبقہ کہ جس کے لیے کتاب پڑھنا معیوب تھا وہ خود کتاب لکھنے لگا۔ نذیر احمد نے تعلیم نسواں کی جو شمع روشن کی تھی اس کے اُجالے میں کئی خواتین ناول نگاروں نے اپنے سفر کا آغاز کیا اور وہ کامیاب وکامران ہوئیں۔ رشید النسا (اصلاح النسا)، نادرجہاں (فسانہ طاہرہ)، اکبری بیگم(گودڑ کا لال)، محمدی بیگم (شریف بیٹی)، صغریٰ ہمایوں (سرگزشت ہاجرہ)،عباس بیگم (زہرا بیگم)کے علاوہ اور دیگر ناول نگار ابتدائی دور کی یادگار ہیں، جن کی اہمیت مسلمہ ہے اگر اخلاقیات اور کردار و شخصیت کی تعمیر کے حوالے سے، ان ناول نگاروں کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو واقعی بڑے کارآمد ثابت ہوں گے۔
۱۹؍ویں صدی کے اختتام تک ادب کے میدان میں صرف مرد ادیب ہی چھائے رہے البتہ چند خواتین نے صرف ناول نگاری میں دلچسپی دکھائی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی ایک اچھی تعداد نے ناول کی تخلیق میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا۔انیسویں صدی کے اواخر میں خواتین کی ناول نگاری کی ابتدا ہو چکی تھی لیکن مذہبی رسوائی اور سماجی لعنت و ملامت کے خوف سے خواتین نے اپنے نام پر پردہ ڈال رکھا تھا اور اپنی تخلیقات کو فرضی نام سے شائع کرواتی رہیں، پھر بیسویں صدی کی آمد آمد پر خواتین میں بیداری شعور کا جذبہ شدید طور پر پیدا ہوا۔ بیسویں صدی کے نصف اول تک ناول نگار خواتین کی ایک ایسی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے نہ صرف معاشرتی نظام کی ناانصافیوں، محرومیوں اور تلخیوں کو اپنا ہدف بنایا بلکہ عام عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اورجبر و تشدد کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔پھر دھیرے دھیرے روایت پسند معاشرے کی تہذیبی،سماجی، سیاسی اور اخلاقی زندگی میں تبدیلیاں واقع ہونے لگیں۔ سیاسی جدوجہد کی شروعات، سماج کی صحت مند تعمیر اور جدید تعلیم کے نمایاں اثرات نے نظام زندگی کو بدلنا شروع کردیا۔
اُردو میں ناول کی تاریخ ڈیڑھ سو سال پرانی ہوچکی ہے۔یہ ایک فطری امر تھا کہ خواتین نے مردوں کے مقابلے میں اس میدان میں تاخیر سے قدم رکھا اور ایک عرصے تک اپنے قلم کو اپنی ہم جنس اور دوسری خواتین کے اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کیا۔ اکبری بیگم، نذر سجاد حیدر حجاب امتیاز علی تاج اوردوسری متعدد خواتین ناول نگاروں نے اپنی تحریروں میں جدید تعلیم یافتہ خواتین کے بارے میں مردوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات اور شبہات کے جواب میں ایسے نسوانی کردار تخلیق کیے جن میں کسی بھی ترقی پسند سماج کی آئیڈیل لڑکی بننے کی صلاحیت موجود تھی۔
ہندوستان کی خواتین ناول نگاروں میں صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد، قرۃالعین حیدر، عصمت چغتائی، جیلانی بانو، آمنہ ابوالحسن، واجدہ تبسم اور پاکستان کی ناول نگاروں میں خدیجہ مستور،رضیہ فصیح احمد،جمیلہ ہاشمی، بانو قدسیہ، بشری رحمن اور طاہرہ اقبال شامل ہیں۔صالحہ عابد حسین کی تخلیقات میں خانگی زندگی کی کشمکش، فرسودہ اصول و ضوابط، جابرانہ رسومات اور قدیم و جدید اقدار کا تصادم بخوبی نمایاں ہے۔ انگریزی حکومت کے آمرانہ اقدامات اور فرقہ پرستی کے خلاف صدائے احتجاج جدوجہد آزادی کی کوششیں اور مہاتما گاندھی کے فلسفہ عدم تشدد اور مساوات کی پرزور حمایت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے عالمی منظر نامے پر طبقہ نسواں کی زندگی کے مختلف مسائل اور اس کے گوناگوں کیفیات اور محرکات بالخصوص معاشرے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی معاشرتی،تہذیبی اور نفسیاتی الجھنوں کا فنکارانہ تجزیہ کیا ہے۔ ان کی وسیع اور گراںقدر تخلیقات میں سماجیات، ثقافت، نفسیات، تاریخ، سیاسیات اور علم فلسفہ کی عکاسی دانشور انہ فکر و نظر اور سماجی حیثیت کے ساتھ نمایاں ہیں۔عصمت چغتائی اردو ادب میں بے باک حقیقت نگار ہیں۔انہوں نے سماج میں پھیلی ہوئی گندگی اور برائیوں کو بے نقاب ہی نہیں کیا بلکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی مسلم خاندان کی پردہ نشین لڑکیوں کی نفسیاتی کشمکش، ذہنی الجھن،داخلی تصادم اور ان سے پیدا شدہ مسائل و محرکات کو اپنے فن پاروں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی تخلیقات پر معاشرتی حالات، عمل اور ردعمل کی گہری چھاپ ہے۔آمنہ ابوالحسن کی تحریروں میں انسانی نفسیات کی جڑیں گہری دکھائی دیتی ہیں۔ وہ انسان کے نفسیاتی پیچ و خم اور اس کی گتھیوں کو سلجھانے میں منفرد نظر آتی ہیں۔ مخلوط تہذیب میں ہندو مسلم اتحاد کی علمبردار اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی پرزور حمایت کرتی ہیں۔واجدہ تبسم کی تخلیقات میں ایک مخصوص طبقے کی تہذیبی و معاشرتی حالات نمایاں ہیں۔ انہوں نے نوابوں اور رئیس زادوں کے استحصالی نظام کو نہ صرف بے نقاب کیا ہے بلکہ نوابوں اور رئیس زادوں کے وضع کردہ اصولوں اور روایتوں کو اپنے تیروں کا نشانہ بھی بنایا ہے۔خدیجہ مستور تخلیقات میں گھریلو رنجشیں، آپس کی رقابتیں اور قرابت داری کی نوک جھونک کے علاوہ انگریزی حکومت کی مکاریوں اور سادہ لوح ہندوستانوں کی مظلومیت واضح طور پر نمایاں ہیں۔ تقسیم ہند کے اثرات اور اس کی بحرانی صورتِ حال کا نقشہ تارک الوطن کے مسائل اور ہجرت سے پیدا شدہ روح فرسا حالات کی عکاسی اور ذاتی کیفیت اور سیاسی محاذ آرائی کے عناصر نا آسودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
رضیہ فصیح احمد کے ناول اگرچہ براہ راست تقسیم ہند کے موضوع سے متعلق نہیں ہیں لیکن فلیش بیک کی تکنیک کا بہتر استعمال ہونے سے یہ کتابیں نہ صرف پر کشش ہو گئی ہے بلکہ ایک قسم کی تزئین کاری سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ یہاں حال ماضی میں اور ماضی حال کے آئینے میں جلوہ گری کرتا ہوا واقعات کے سے عوامل و محرکات سے ہمیں روبرو ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے، جنھیں جاننے کی خواہش کہانی کی مزید قرأت کی طرف ہمارا ذہن لے آتی ہے۔ دراصل انہوں نے ناول میں جس نظام زندگی کی عکاسی کی ہے اس میں اعلی اقدارِ حیات کی بجائے، جذبات و احساسات جلوہ گر ہوتے ہیں۔ جہاں ظاہری چمک دمک گمراہ کن رجحانات آزادی کا بیجا استعمال، خوشیوں کی تلاش اور ساتھ ہی مقاصد کا حصول ہی زندگی کا اعلی ماحصل تصور کیا جاتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے اپنی تخلیقات کے ذریعے بالخصوص تلاش بہاراں میں تقسیم ہند سے قبل برصغیر کی قدیم مشترکہ تہذیب کی تصویر کشی پھر ایسی مشترکہ تہذیب کا خاتمہ پوری قوم جو بہاروں کی تلاش میں ایک صدی تک سرگرمِ عمل رہتی ہے، بالآخر اس کا نتیجہ قتل و غارت گری اور فرقہ وارانہ فسادات کی صورت میں سامنے آتا ہے انہوں نے اپنی تحریروں میں معاشرے کی تلخیاں ذہنی کرب و اذیت اخلاقی طور سے روبہ زوال سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کے علاوہ بنیادی طور پر انسانی اقدار کی پامالی کو واقعات کے پس منظر اور حقائق کی روشنی میں پیش کیا ہے۔بانو قدسیہ کی تحریروں میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان کا جدید معاشرہ کے بھونڈے پن کی عکاسی کی ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو ذہنی، سماجی، نفسیاتی، اخلاقی اور تعلیمی حیثیت سے بحران کا شکار ہے،جس کے نتیجے میں رزق حرام کی طرف نہ صرف دیوانہ وار گامزن ہے بلکہ بے حسی کا شکار بھی ہو چکا ہے۔ نفس پرستی ایسے سماج کے لوگوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہاں حلال و حرام میں کوئی تمیز نہیں رہتی۔ بانو قدسیہ نے انسان کی اخلاقی اقدار کی تخریب اور جدید نسل کی بے راہ روی کا نقشہ بھی اتارا۔ اس حیثیت سے ہندوستان و پاکستان دونوں ممالک کی خواتین ناول نگاروں نے تقسیم کا حادثہ برصغیر کے سیاسی بحران کے حالات و کیفیات اور خاص طور سے اپنے اپنے ملک کے سماجی، معاشی اور تہذیبی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے بلکہ اپنے تمام موضوعات و مسائل، فلیش بیک کی تکنیک کے تجربات اور کردار نگاری کی سطح پر نئے تقاضے، نئے رجحانات اور نئی جہتوں سے روشناس بھی کیا ہے ۔
بیسویں صدی کے نصف اول کے ابتدائی برسوں میں خواتین ناول نگار وں کا ایک ایسا طبقہ سامنے آیا جنہوں نے عام گھریلو عورتوں کے مسائل کو بڑی ہی باریک بینی اور ظرف نگاہی سے پیش کیا۔اکبری بیگم نے چار ناول لکھے۔ گودڑ کا لعل کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔مجھے اس دور کے دوسرے ناول نگاروں کی طرح اکبری بیگم کے یہاں بھی ان کے مقصدی موضوعات کے تحت کردار خیراورشر میں تقسیم نظر آتے ہیں لیکن یہاں ان کی ترقی پسندی اور بصیرت ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو مکمل طور پر فرشتے اور شیطان میں تقسیم نہیں کرتی بلکہ انسان کی بنیادی فطرت پر یقین رکھتی ہے۔ قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں: اکبری بیگم غیر معمولی طور پر ذہین اور لکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتی تھی مگر لکھیں تو چھپوائیں کہاں؟ اکبری بیگم نے سب سے پہلا ناول فرضی مردانہ نام سے مراد آباد سے شائع کروایا بعد میں والدہ افضل علی کے نام سے ناول لکھے۔ ان کے تمام ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت گودڑ کا لعل کو ملی۔ ا س نے نئی مڈل کلاس مسلمان عورتوں کی بائبل کی حیثیت اختیار کرلی۔لڑکیوں کو جہیز میں دیا جانے لگا یہ 728 ؍صفحات پر مشتمل ایک نہایت طویل ناول ہے اس کی ترقی پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں پہلی بار مسلم لڑکیوں کے لیے مخلوط تعلیم کا تصور ملتا ہے۔مکالمہ نگاری میں البتہ ایک کمزوری ہے کہ ان کے یہاں اکثرایک کردارمکالمہ بولتے ہوئے ایک یا دو جملے بول کر دوسرے کر دار کو مکالمہ ادا کرنے کا موقع نہیں دیتا بلکہ وہ ایک ہی وقت میں ڈھیر سارے مکالمے ادا کرتا ہے اور اس صورتِ حال سے کسی قدر غیر فطری انداز پیدا ہوا ہے، جس سے قاری اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے مگر یہ شاید اس وجہ سے بھی ہوا کہ اُن کا بنیادی مقصد اصلاحِ معاشرہ ہے۔ لہٰذا مکالمہ اکثر مقامات پر واعظ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
ایک اہم نام نذر سجاد حیدر کا بھی تھا انہوں نے اختر النسا، آہ مظلوماں اور حرماں نصیب جیسے ناول تخلیق کیے۔ مذکورہ بالا خواتین ناول نگاروں کے ناولوں میں کم و بیش نذیر احمداور راشد الخیری کے اثرات کرم فرما نظر آتے ہیں اور ان کے تمام ناولوں کے موضوعات کسی نہ کسی طرح تعلیم سے رشتہ استوار کر لیتے ہیں کیونکہ نذیر احمد نے تمام اخلاقی زوال اور سماجی پستی کا واحد سبب جہالت کو قرار دیا تھا، اس لیے انہوں نے عورتوں کے لیے تعلیم کی افادیت اور اس کی اہمیت پر پوری توجہ صرف کی ہے لیکن راشد الخیری نے نہ صرف تعلیم کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا بلکہ عورتوں کی بے کسی اورمظلومیت کو نمایاں کیا۔ نذیر کے برعکس راشدالخیری نے عورت کے مسائل کو عورت کی نظر سے دیکھا اور اس کے دکھ درد کو اپنا دوست بنا کر اس کا مداوا تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اُن کی نظر اس کی زندگی کے ہر پہلو پر گئی ہیں۔ اس طرح پہلی مرتبہ ہمارا ادب عورت کی معاشرتی حیثیت کا صحیح مفسر بننے کے علاوہ اس کے ذہنی اور جذباتی زندگی کا آئینہ دار بنا۔
نذیر احمد اور راشد الخیری نے طبقہ نسواں کے مسائل، ان کی ذہنی اور جذباتی کشمکش اور گھریلو الجھنوں کی تصویر کامیابی سے اپنے ناولوں میں اتاری۔نذیرکے ناولوں نے خواتین کی زبردست حوصلہ افزائی کی اور جہاں مردوں نے عورتوں کے مسائل کو عورت کی نظر سے مشاہدہ کر کے اس کی بھرپور تصویر کشی کی تو دوسری طرف خواتین نے بھی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور باریکیوں پر غور کیا اور ان کے مسائل کو بھی واضح کیا جن تک مرد کو کی نظریں نہ پہنچ سکی تھیں۔
نذیر احمد اور ان کے بعد راشد الخیری نے معاشرے کی چند بنیادی خامیوں کی شناخت کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کے بغیر بہتر معاشرے کا تصور محال ہے۔ مولوی نذیر احمد معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری سمجھا کہ لڑکیوں کو بھی تعلیم و تربیت سے آشنا کیا جائے۔مولوی نذیر احمد نے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور زندگی کے چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے قسط وار مضامین کی شکل میں مراۃالعروس لکھا جس کو ناول نگاری کا نقش اولیں قرار دیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالسلام ’’اُردو ناول بیسویں صدی میں‘‘ میں لکھتے ہیں ہیں: اُردو ناول ایسے شخص کے ہاتھوں میں وجود میں آیا جو نہ فن سے واقف تھا اور نہ اس نے ناولوں کا مطالعہ کیا تھا دنیا کا شاید ہی کوئی ناول مراۃالعروس کی طرح وجود میں آیا ہوں اور شاید ہی کسی کی تصنیف کی وجہ اس قدر غیر ادبی ہو۔ اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی متعدد اصلاحی اور اخلاقی ناول تصنیف کیے جس کا مقصد یہ تھا کہ معاشرتی اور خانگی زندگی میں خوشگوار ماحول لایا جاسکے۔ انہوں نے پہلا ناول مراۃالعروس ۱۸۶۹ء میں لکھا۔بنیادی طور پر یہ ناول انہوں نے اپنی بچیوں کی تربیت کے لیے لکھاتھا، جس میں ایسے کردار تخلیق کیے کہ ایک نیکی،بھلائی اور شکر کا مجسمہ اور دوسرا شرکی تصویر۔اُس دور میں لکھے جانے والے یہی طریقہ کار اپنایا گیا۔وہ اسلامی معاشرہ کی اصلاح میں پیش پیش تھے لہٰذا بقول مولوی عبدالحق انہوں نے فن کومقصد کی کھونٹی پر ٹانگ دیا۔اُن میں اچھا ناول نگار بننے کی صلاحیت موجود تھی لیکن اُن کی اصلاح پسندی ناول کے پاؤں کی زنجیر ثابت ہوتی ہے۔بہر حال یہ وہی زمانہ تھا جب سرسید احمد خان نے بھی طبقہ نسواں کے لیے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا۔ دیگر اصلاحی ناول لکھنے والوں میں علامہ راشد الخیری کا نام بہت اہم ہے۔انہوں نے حسن وعشق کے موضوعات سے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا لیکن ڈپٹی نذیر احمد کے کہنے پر اصلاحی ناول لکھنا شروع کیے۔ اُن کا پہلا ناول صالحات کے نام سے ۱۸۹۸ء میں شائع ہوا اس کے بعد اپنے مشہور ناولوں صبح زندگی، شام زندگی وغیرہ میں ہندوستان کی مظلوم عورتوں کی صورتِ حال کی تصویر کشی کی اور ’’مصورِ غم‘‘ کا خطاب پایا۔
لیکن سبھی ناول نگار خو اتین نے نذیر اور راشدالخیری کے مکمل اثرات کو قبول کیا اور نہ ہی پوری طرح ان کی مقلد رہی ہیں، مگر بعض خواتین پر دونوں کا گہرا اثر تو دکھائی دیتا ہے جیسے ان کی حیثیت مقلد سے کچھ بھی زیادہ نہیں رہ جاتی۔بیگم شاہ نواز کے ناول حسنیٰ میں نذیر احمد کی اصغری کی طرح ہی ہیروئن تعلیم و تربیت، نیک اوصاف اور فرمابردار لڑکی کا تصور لے کر ابھرتی ہے۔ محمدی بیگم کے ناول کی ’’شریف بیٹی‘‘ راشدالخیری کی شریف بیٹیوں کی طرح ہر دکھ اور مصیبت جھیلنے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں لیکن لوگوں پرلعنت و شکوہ نہیں کرتی اور آباؤ اجداد کی عزت پر آنچ آنے نہیں دیتی۔یہ ناول نذیر احمد کے ناولوں سے کافی متاثر ہے یہاں بھی اکبری اور اصغری کی طرح کردار ہیں۔ ایک خیر کی نمائندگی کرتا ہے تو دوسرا شر کی۔ محمدی بیگم کے دوسرے ناول آج کل اور صفیہ بیگم میں نذیر احمد اور راشدالخیری کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ آج کل میں آج کا کام کل پر نہ ٹال کا مقصد نمایاں ہے۔ فہمیدہ اس ناول کا مرکزی کردار ہے۔فہمیدہ تمام خوبیوں کی مالک ہونے کے باوجود ہر کام کو آئندہ کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ اس کی کوتاہی اور لاپرواہی سے ہی گھریلو زندگی میں طرح طرح کے المناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔ فہمیدہ کے گھر کی سیڑھیوں کی دیوار بوسیدگی اور خستہ حالی کا نظارہ پیش کر رہی تھی جس کی مرمت کرنا نہایت ضروری تھا لیکن اس کی مرمت کے لیے وہ دھیان نہیں دیتی بلکہ کل پر ڈالتی رہتی ہے آخر کار دیوار گر جاتی اورفہمیدہ کا اپنا بچہ دیوار تلے دب کر انتقال کر جاتا ہے۔
خواتین ناول نگاروں کے ناولوں میں تعلیم کی کمی بھی تقریبا ہر جگہ دکھائی دیتی اور احساس دلایا گیا ہے کہ تعلیم کے فقدان سے نہ تو انسان ترقی کی منزلیں طے کر سکتا اور نہ ہی عورتیں اپنے بچوں کی بہتر پرورش کر سکتی ہیں، نہ ان کو صحیح راہ دکھا سکتی ہیں۔ اس لیے مخصوص طبقہ نسواں کو حصول تعلیم پر آمادگی کا احساس دلایا گیا ہے۔ ڈاکٹر یوسف سرمست کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی نے بھی نذیر احمد کے ناولوں میں کردار کی نفسیاتی پیشکش کو بطور خاص سراہا ہے۔ نذیر احمد کے کرداروں پر یک رخے، مثالی،ٹائپ، تمثیلی ہونے کے اعتراضات کیے گئے ہیں جو غلط نہیں البتہ مولانا صلاح الدین احمد کے بموجب ان کے بعض کردار ان کی اپنی شخصیت کا عکس ہیں۔ اصغری کی جارحانہ شخصیت مولوی صاحب کی اپنی ہی شخصیت کا چربہ ہے اور اس کے کردار کی فائدہ پرستانہ کیفیت بھی انہی کے مزاج اور نصب العین کا عکس ہے۔ اصغری مولوی نذیر احمد کا زنانہ روپ ہے۔
نذر سجاد حیدر نے اپنے ناول میں یہ واضح کیا ہے کہ اگر عورتیں تعلیم یافتہ ہوں تو اپنی زندگی کی تمام دشواریوں اور الجھنوں کو نہایت سلیقہ مندی سے حل کر سکتی ہیں اور آہ مظلوماں میں غلط شادیوں کے نتائج کو بیان کیا گیا ہے۔ طیبہ بیگم کے ناول انوری بیگم میں عورتوں کی گھریلو زندگی اور خانگی ذمہ داریوں کی ضرورتوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ ان تمام ناولوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تمام دشواری اور مشکلات کا واحد حل صرف تعلیم ہے۔ اس طرح سے نذیر احمد کے ناصحانہ انداز بیان سے کم و بیش سب ہی خواتین ناول نگار متاثر دکھائی دیتی ہیں۔
بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں تعلیم یافتہ خواتین کا ایک ایسا طبقہ ابھر کر سامنے آیا جس نے خواتین پر ہونے والے ظلم اور بے انصافیوں کے خلاف قلمی محاذ قائم کیا اور اپنے حقوق طلب کیے۔ اس زمانے میںجو اصلاحی رسالے بھی شائع ہونا شروع ہوئے۔ ان میں میں تہذیب نسواں (۱۸۹۸ء، لاہور) اور عصمت (۱۹۰۸ء دہلی) خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ تہذیب نسواں کی ایڈیٹر محمدی بیگم تھیں۔ ان رسالوں میں لکھنے والوں کی اکثریت خواتین کی ہوتی تھی۔ انہوں نے اپنے مسائل سے متعلق خود بھی مضامین لکھے اور ادیبوں کو بھی اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔چند خواتین ناول نگار ایسی ہیں جنہوں نے خواتین کے لیے ایک نئی زندگی کا خواب دیکھا جہاں خواتین انسانیت کے بنیادی حقوق کی طلب گار ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب سے بہرہ ور ہونا ان کا بھی حق ہے۔ ان خواتین ناول نگاروں نے عورت اور مرد کی زندگی کو خانوں میں تقسیم کرکے نہیں دیکھا۔ ان کی ہیروئن کا اگر گھر کے اندر کام میں مگن ہے تو اپنی زندگی بہتر بنانے کی خاطر گھر سے باہر نکل کر جدوجہد کر سکتی ہے۔ان کی ہیروئن پیانو بجاتی ہے اور نماز بھی پڑھتی ہے۔ مغربی تعلیم بھی حاصل کرتی اور خانہ داری میں بھی طاق ہے۔ اس کے طور طریقے طرز رہائش مغرب سے متاثر ہیں۔ اس طرح حیات کی جنت طیبہ بیگم کے ناول انوری بیگم میں نظر آتی ہے۔ خواتین کے تحریر کردہ ناولوں میں بیشتر ناول کردار کے ناول ہیں جیسا کہ ناولوں کے نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی ایک کردار کی زندگی کے گرد گھومتے ہیں۔ اگرچہ اُس دور کی کردار نگاری میں زیادہ گہرائی نہیں ملتی لیکن کرداروں کو سماج کے اہم تناظر میں رکھ کر پڑھ سکنے اور پیش کرنے کی کوشش ملتی ہے۔ ہمیں اس دور کے ناولوں میں آج کے ناولوں کی فنی پختگی تلاش بھی نہیں کرنی چاہیے کہ وہاں کرداروں کی پیشکش میں ایک مکمل انسان کی شخصیت یا معروضیت نہیں مل سکتی۔یہ تمام چیزیں آج کے ناول کی خصوصیات ہیں۔ اس دور کی تمام خواتین ناول نگاروں کے علاوہ نذیر احمد اور راشدالخیری یہاں تک کہ پریم چند کے یہاں بھی جانب داری کا احساس ملتا ہے۔ اُردو فکشن میں واضح معروضیت سب سے پہلے منٹو اور عصمت چغتائی کے ہاں نظر آتی ہے۔ اُن خواتین ناول نگاروں کے ناولوں میں بڑی خصوصیت ماحول کی اور سماجی تہذیبی زندگی کی پیشکش ہے۔ زبان کی سطح پر بھی خواتین کے ناول پیچھے نہیں۔خطابت کے انداز تحریر سے قطع نظر، ان کی زبان میں کسی طرح کا خوف نہیں ہے۔ ان کی زبان صاف ستھری ترقی یافتہ و ادبی ہے۔ خواتین کے ناولوں کا یہ امتیازی وصف ہے کہ انہوں نے خالص گھریلو الفاظ خواتین کے روز مرہ کو نہایت خوبی سے استعمال کیا ہے۔
۱۹۳۲ ء میں انگارے کی اشاعت نے حقیقت پسندی کے رجحان کو فروغ دیا جس نے آگے بڑھ کر ترقی پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی۔اپنے ایک ناول میں عصمت چغتائی نے حقیقت پسندی اور نفسیات کی آمیزش سے سمن کا ایک جیتا جاگتا کردار تخلیق کیا ہے اُردو ادب میں جگہ مستحکم جگہ بنالی۔ ۱۹۶۰ء تک آتے آتے ہندوستان اور پاکستان میں اَن گنت اہم اور غیر اہم خواتین ناول نگار سامنے آئیں جن میں خدیجہ مستور،جمیلہ ہاشمی، رضیہ فصیح احمد، جیلانی بانو، بانو قدسیہ، نثار عزیز بٹ غیرہ چند اہم نام ہیں۔ 1947ء کے بعد فکشن کی کائنات پر خواتین تخلیق کاروں کا تسلط ہے اور امکان ہے کہ آئندہ بھی یہی صورتِ حال ہوگی۔انگارے کی اشاعت کے باوجود ناول کا بنیادی کینوس محدود تھا جسے قرۃ العین حیدر نے اپنی فنکاری کے ذریعے آفاقی ہمہ گیری عطا کی۔ ان کے ناولوں نے انسانی زندگی کائنات، مشرق و مغرب کے دنیا کو ان کے تمام فکر و فلسفے کے ساتھ اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔
آدرشی کرداروں کی تخلیق میں بھی خواتین کو ہُنر مندی حاصل ہے۔یہ اختصاص اُن کے ناولوں کو نمایاں کرتا ہے۔ ان کرداروں کے آدرش اُن کی اصول پسندی،کردار کی عظمت اور کسی مقصد کے لیے جان قربان کردینے سے تشکیل پاتے ہیں۔اس قسم کے کردار ماضی میں بھی ہمیں نظر آتے ہیں مثال کے طور پر قرۃ العین حیدر کے ناول آگ کا دریا کی چمپا خدیجہ مستور کے آنگن کی عالیہ، انہی کے دوسرے ناول زمین کی ساجدہ،نثار عزیز بٹ کے ناول نگری نگری پھرا مسافر کی افگار اور رشیدہ رضویہ کا کردار امیرہ اور امید یہی کا ہے کہ خواتین کے ہاں آئندہ بھی یہ رجحان پایا جاتا رہے۔
تقسیم سے پہلے کی ناول نگار خواتین تقسیمِ ہند سے کچھ عرصہ پہلے کی خواتین ناول نگاروں میں حقیقت و صداقت، غوروفکر، نفسیاتی پیچ و خم اور حقیقت پسندانہ رویہ ملتا ہے۔ ان کے مشاہدات نے چہار دیواری سے نکل کر معاشرتی زندگی کے گوناگوں اور پیچیدہ مسائل کو اپنی گرفت میں لیا۔ خواتین کی وسعت نظری اور بالیدہ شعور سے ان کی کہانیوں کے زیر و بم میں غیر معمولی قوت پیدا ہو گئی۔ انہوں نے تخیل کی بلند پروازی اور غور و فکر کی باریکیوں کو نہ صرف پہلو بہ پہلو رکھا ہے بلکہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ ناول کو عظمت بخشی ہے۔ ان خواتین میں حجاب امتیاز علی، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
٭…

Related posts

Leave a Comment