خالد علیم ۔۔۔ اداریہ (ماہ نامہ فانوس، بانی نمبر)

شعاعیں

منچندا بانی (م ۱۹۸۱ء) کی وفات کے پینتیس سال بعد ’’فانوس‘‘ کی یہ خصوصی اشاعت اس کی باعظمت شاعرانہ حیثیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک ادنی کوشش ہے۔بانی پر اس خصوصی اشاعت کے اداریے کا آغاز ہم معروف افسانہ نگار، شاعر و نقاد جناب عباس رضوی کے اس اقتباس سے کرتے ہیں جو انھوں نے ’’ولے شعلۂ مستعجل بود — احمد زاہد‘‘ کے عنوان سے عمدہ لب و لہجہ کے ایک شاعر احمد زاہد (مرحوم) کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:
’’ہم سب نے ایسے بہت سارے شعری مجموعے دیکھے ہیں جن کے ایک ایک نقطے پر خوب خوب غور کیا گیا، ایک ایک لفظ کو بارہا سوچا گیا، ٹائٹل پر زرِ کثیر صرف کیا گیا، اعلیٰ ترین دستیاب کاغذ پر بہترین چھاپہ خانوں میں انھیں زیورِ طبع سے آراستہ کیا گیا۔ تعلقاتِ عامہ کے جدید ترین اصولوں کے مطابق پانچ ستارہ ہوٹلوں کے دربار ہالوں اور ہال رومز میں انھیں Launch کیا گیا۔ انواع و اقسام کے لوازمات، لذتِ کام و دہن کے لیے میزوں پر چن دیے گئے اور پھر ان کے لیے طاقت وَر تشہیری مہمیں چلائیں گئیں۔ مگر وہ شعری مجموعے اب کہاں ہیں؟ اور وہ شعرا کس حال میں ہیں؟ یہ ہم سب جانتے ہیں اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ تو اور ہی شے ہے جو شعر میں جادو کا اثر پیدا کر دیتی ہے۔ میرے سامنے جو مسودہ ہے، اس کے خالق کو یہ سوچنے کا موقع بھی نہیں ملا کہ وہ کون سی غزل اپنے اس مجموعے میں شامل کرے اور کون سی نہ کرے؟ بل کہ اسے تو اپنی بہت سی غزلوں پر نظر ثانی کی مہلت بھی موت سے قبل نہ مل سکی جو مختلف پرزوں پر لکھی ہوئی بمشکل دستیاب ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود احمد زاہد کی شاعری کو نہ کسی ہم دردانہ نقطۂ نگاہ کی ضرورت ہے اور نہ رعایتی نمبروں کی۔ اس کی تخلیقی قوت نے اس کی شاعری میں ایسے عناصر شامل کر دیے ہیں جو تخلیقی شاعری کی پہچان ہوتے ہیں۔‘‘ (نقدِ امروز، ص ۱۱۱)
اور کم و بیش یہی بات بانی کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ منچندابانی — ’’کی شاعری کو نہ کسی ہم دردانہ نقطۂ نگاہ کی ضرورت ہے اور نہ رعایتی نمبروں کی۔‘‘ —اس لیے کہ بانی کی شاعری فنی اور فکری لحاظ سے اپنے تمام معاصرین کے شعری مرتبے سے کہیں ہم قدم ہے تو کہیں اس سے آگے سفر کرتی دکھائی دیتی ہے،اور اس کا نمایاں سبب بانی کا اپنا تحیر خیز اسلوب، منفرد حساسیّت اور شعری فضا کی وہ اسراریت ہے جو انھیں اپنے ہم عصروں کے درمیان بالکل الگ تھلگ بل کہ نمایاںحیثیت دیتی ہے مگر —-
نہ کبھی ’’تعلقاتِ عامہ کے جدید ترین اصولوں کے مطابق پانچ ستارہ ہوٹلوں کے دربار ہالوں اور ہال رومز میں انھیں Launch کیا گیا‘‘ اور نہ ہی ’’انواع و اقسام کے لوازمات، لذتِ کام و دہن کے لیے میزوں پر چن دیے گئے اور پھر ان کے لیے طاقت وَر تشہیری مہمیں چلائیں گئیں۔‘‘ اس لیے کہ بانی کو ان تکلفات اور لاٹھیوں کے سہارے کی ضرورت ہی نہ تھی۔وہ اپنی موت کے بعد بھی زندہ ہے تو اپنے کلام کی الگ خصوصیات کی بنا پر۔اس کی شاعری اس کے پڑھنے والوں کے دلوں سے محو نہیں ہوئی۔ گزشتہ پینتیس سال کے عرصے میں ملک اور بیرون ملک دُور دراز کے علاقوں سے بھی کوئی نہ کوئی آواز سننے کو ملتی رہی جو اس کے پڑھنے والوں کے دلوں سے نکلی اور سماعت در سماعت پھیلتی گئی۔ پڑھنے والوں نے اسے مکمل طور پر کبھی نہیں بھلایا۔ گوپی چند نارنگ جیسے جینئس نقادوں نے بھی اس کی شاعرانہ حیثیت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔
بانی پر اب تک جو کچھ لکھا گیا یا اس مختصر وقت میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آ سکا، ان میں ممتاز نقاد گوپی چند نارنگ اورعتیق اللہ کے مضامین خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ تاہم ہمارے عہد کے سب سے زیادہ معروف اور بڑے اہم نقاد محترم شمس الرحمن فاروقی صاحب کا مضمون بھی شامل اشاعت کیا جا رہا ہے کہ ’’جملۂ معترضہ‘‘ کی ’’جملہ معروضات‘‘ سے الگ بانی پر ان کا سیر حاصل تبصرہ بہرحال لائقِ مطالعہ ہے۔نارنگ کے بعد ’ ’شفق شجر‘‘ کے دوسرے دیباچے کے طور پربیش تر مضمون کا توصیفی اور تشریحی پیرایہ فاروقی صاحب کی انفرادی تجزیہ کاری کا نمایندہ ہے، تاہم بین السطور میں ان کا مخصوص اندازِ نظر بھی نمایاں ہے اورظفر اقبال کے حوالے سے تو بانی کی روح کو خاصا صدمہ پہنچا ہے۔بانی کا تجزیہ کرتے وقت فاروقی صاحب نے ’’براہِ راست‘‘ کے بجاے ہمیں کچھ گزشتہ و موجود د نیاے شعر کی سیر بھی کرائی ہے (جیسا کہ ان کا خاص اندازِ نظر ہے) اور پھر یہی اس تجزیے کی نمایاں خوبی نظر آتی ہے کہ بانی کی فکری اور شعری پرتیں کھولتے ہوئے انھوں نے بہت کچھ ’’پردۂ زنگاری‘‘ میں چھپا لیا ہے اور بہت کچھ اس پردے سے باہر لا کر ہمیں نو بہ نو جہانِ معنی کی آشنائی بخشی ہے۔ ان کے تجزیے کی صف میں قدیم و جدید کئی شعرا ہاتھ باندھے کھڑےہیں اور وہ کسی بھی وقت اپنے تحکمانہ اندازِ نظر سے کسی ایک کو اس صف سے باہر نکال کر بانی کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں۔ کبھی دست بستہ تو کبھی کمربستہ— سو اِس اعتبار سے ممکن ہے ان کے بہت سے چاہنے والوں اور خود ان کی اپنی نظر میں یہ اندازِ نظر شرحِ صدر ہی کا باعث ہو۔
فاروقی صاحب نے بانی کی شاعرانہ حیثیت کے اعتراف کے باوجو بانی کی شعری صلاحیتوں کو جس خوبی سے ظفر اقبال کا کارنامہ قرار دیا ہے، یہ کام کم از کم اُن کے سوا کسی اور کے بس کا نہ تھا۔لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ فاروقی صاحب کے ہم عصر بانی کا کیا قصور ہے۔ بانی صرف شاعر— اور فاروقی صاحب شعری اِدّعا کے ساتھ نقاد بھی۔ اورپھر بانی،آں جہانی کی حیثیت میں کہ ’’جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا‘‘ کب واپس آکر تردید کرنے والا ٹھہرا۔ایک سینئر معاصر کی مدح سرائی میں بانی کا شاعرانہ تشخص بالخصوص اس حوالے سے جس طرح مجروح ہوا، اس کا نہایت عمدہ محاکمہ نہایت میانہ روی کے ساتھ ’’نقدِ امروز‘‘ میں جناب عباس رضوی صاحب رقم فرما چکے ہیں۔ ہم تویہی کہیں گے کہ بقول بانی:
تا بہ منزل یہ بکھری ہوئی گردِ پا کس کی ہے اے برابر قدم دوستو وہ جدا کون تھا
ظاہر ہے ’’بکھری ہوئی گردِ پا‘‘ تو کسی اور کی ہے اور برابر قدم دوستوں میں فاروقی صاحب خود بھی ہیں جوبہ حیثیت نقاد و محقق اپنے علمی تبحراور تنقیدی جہات کے تمام مظاہر کے ساتھ بڑے بڑوں کی کھال ادھیڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نہایت احترام و ادب کے ساتھ۔فاروقی صاحب بہرحال علم و ادب کے میرِ لشکر ہیں اور ’’شب خون‘‘ مارنا اُن کا شیوہ رہا ہے۔ویسے تو وہ کاغذی شب خون مارنے کا سلسلہ پہلے ہی سے بند کر چکے ہیں، حال آں کہ اس شب خون نے ہمیں بہت کچھ سکھایا، بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سیکھنے والے تھے۔
’’شفق شجر‘‘ کا یہ دیباچہ بعد میں فاروقی صاحب کے مجموعۂ مضامین ’’اثبات و نفی‘‘ میں شامل ہوا جس کا انتساب بانی اور زیب غوری کے نام کیا گیا ہے۔یقیناً زیب غوری اُن کا پسندیدہ شاعر ہے اور بانی اس مجموعۂ مضامین میں بھی کہیں کہیں معتوب۔ اسی مجموعے میں پریم کمار نظر کی شاعری پر فاروقی صاحب کے ایک مضمون میں معاملاتِ حسن و عشق اور عشقیہ شاعری کے مسئلے کی ذیل میں یہ رائے بھی ملتی ہے:
’’اس مسئلے کو ظفر اقبال اور بانی نے اپنی اپنی طرح حل کیا ہے اور آج کوئی شاعر ان دونوں (یا ان میں سے کسی ایک) کے دریافت کردہ راستوں سے آشنا ہوئے بغیر اپنی راہیں تلاش نہیں کر سکتا۔‘‘
’’کسی ایک‘‘ کو بہت بڑا کریڈٹ مل گیا ہوتا اگر سخن گسترانہ قوسین میں درج —(یا ان میں سے کسی ایک)— کا تعین بھی کسی ایک کے حق میں ہو جاتا۔ دراصل ’’کسی ایک‘‘کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر فاروقی صاحب کو یہ ضرورت درپیش تھی۔اس لیے کہ یہاں بھی بانی کی خصوصیت اجاگر ہونے کے باوجود ظفر اقبال کا قد اونچا کرنے کی فکر تھی یاشاید،ایسے الجھائو پیدا کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔تاہم بانی کا قصوریہ ہے کہ بقول اُن کے ’’بانی پیرویِ میر اور پیرویِ انشا سے اتنے ہی نامطمئن تھے جتنے پیرویِ فراق یا پیرویِ جگر یا پیروی یگانہ سے۔‘‘ گویا بانی کے ہاں پیرویِ میر بھی تھی اور اور پیرویِ انشا بھی، اور عدم اطمینان کے باعث انھوں نے یہ پیروی ترک کر دی اور یہی ان کا قصور ہے۔اور پھر لکھتے ہیں: ’’ان کی سرشت میں ایک بے چین لاابالی پن تھا‘‘۔ یقیناً رہا ہوگا کہ فاروقی صاحب ان کے زیادہ قریب تھے اور ہم سے بہتر جانتے ہیں مگر یہ لاابالی پن بانی کی شاعری میں تو کہیں نظر نہیں آتا۔ یوں مضمون میں تعریف کے پہلو میں بھی تنقیص کا رنگ نمایاں ہونے لگتا ہے۔ یہ فاروقی صاحب کی خوبی ہی نہیں، ان کے کمالات کا ایک ادنیٰ کرشمہ ہے کہ پڑھنے والا اُن کے تجزیاتی تبحر میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔بلا شک و ریب فاروقی صاحب ہماری اردو تنقید کے امام ہیں، ان کا احترام ہم پر واجب ہے مگر بہ نظرِ انصاف دیکھا جائے تو بانی کا کلام ان سے کچھ اور ہی تقاضا کرتا ہے۔ ہر چند—کہ بانی کو ’’رعایتی نمبروں‘‘ کی ضرورت نہیں۔ فاروقی صاحب نے اپنے مضمون کے آخر میں بھی اپنے تنقیدی معیار کا وقار قائم رکھتے ہوئے بانی کے دو شعر درج کیے ہیں جن میں ایک شعر یہ ہے:
کہاں تلاش کروں اب اُفق کہانی کا نظر کے سامنے منظر ہے بے کرانی کا
اور اپنے تبصرے کے بعد بیدل کا یہ شعر دیا ہے:
ہر طرف نظر کردیم ہم بہ خود سفر کردیم اے محیطِ حیرانی! ایں چہ بے کرانی ہاست
جب کہ بانی کے شعر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اس مطلع کے آگے بیدل کی دنیا آبادہے۔ بانی اگر زندہ ہوتے تو اس دنیا کی تسخیر بھی انھی کی تقدیر ہوتی۔‘‘ —اب ظاہر ہے کہ وہ اس ’’تسخیر‘‘ کے پردے میں کیا کہنا چاہتے ہیں، حال آں کہ وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ بانی ہی نہیں، اس سے پہلے غالب و اقبال اور ان سے بھی پہلے کم و بیش ہر شاعر کے ہاں اس ’’تسخیر‘‘ کے کئی مظاہر موجود ہیں۔ ایسا کیوں ہے، اس کا محاسبہ تو وہ ہم سے کہیں بہتر کر سکتے ہیں— سو، اس نمبر میں اس مضمون کی شمولیت اس لیے ہے کہ بہرحال بانی پر لکھا گیا ایک مضمون اس تناظر میں بھی ہے۔
ڈاکٹر ممتاز الحق کی کتاب ’’جدید غزل کا فنی، سیاسی و سماجی مطالعہ‘‘ سے بانی کی شاعری پر ایک تبصرہ شامل کیا جا رہا ہے، جس میں کہیں کہیں فاروقی صاحب کے نقطۂ نظر کو بھی پیش کیا گیا ہےاور کہیں کچھ اختلاف کا پہلو بھی موجود ہے۔ پروفیسر قمر رئیس کی مرتبہ ’’معاصر اردو غزل‘‘ سے جناب مغنی تبسم کا ایک اہم مضمون اس نمبر کا گراں قدر حصہ ہے۔ مظفر حنفی صاحب کا مضمون تاحال نہیں مل سکا البتہ ’’جدیدیت: تجزیہ و تفہیم‘‘ سے ایک اقتباس ضرور شامل کر لیا گیا ہے۔ڈاکٹر سرور الہدیٰ کا مضمو ن نوید صادق کے توسط سے، جناب شاہین عباس صاحب کا عطیہ ہے اور ہم ان کی اس کرم فرمائی کے ممنون ہیں۔ہندوستان میں بانی کے اب تک تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بانی کی زندگی میں پہلا مجموعہ ’’حرفِ معتبر‘‘(۱۹۷۱ء) ،دوسرا ’’حسابِ رنگ‘‘ (۱۹۷۶ء)، اور تیسرا ’’شفق شجر‘‘ (۱۹۸۲) بانی کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ بھارت سے جناب اعجاز عبید کا چند سال قبل کوئی تیس غزلوںپر مشتمل ایک انتخاب جناب نوید صادق صاحب کے ذریعے ہمیں موصول ہوا تھا۔ اور اِن دنوں، جب بانی نمبر کی اشاعت کا منصوبہ زیرِ غور تھا، انٹرنیٹ پر جناب تصنیف حیدر کے کیے گئے انتخاب کی کوئی پچاس سے زیادہ غزلیں پڑھنے کو ملیں جو اُن کی اجازت سے اب اس نمبر میں شامل کی جا رہی ہیں۔ ہم جہاں تصنیف حیدر کے ممنونِ کرم ہیں، وہاں جناب اعجاز عبید کے بھی شکرگزار ہیں کہ انھوں نے بانی کا انتخاب اس وقت مرتب کرکے روانہ کیا جب بانی تک ہماری رسائی کا ذریعہ صرف گوپی چند نارنگ اور جناب شمس الرحمن فاروقی کے مضامین ہی تھے۔
متذکرہ بالا مضامین سے علاوہ بھارت میں آں جہانی بانی پر ان کی زندگی میں اور وفات کے بعدکس نے کیا لکھا، کتنا لکھا، کیا مخالفتیں اورکیا موافقتیں ہیں؟ ہمیں اپنی نارسائی اور کم علمی کا اعتراف ہے۔بانی کے بارے میں ہماری معلومات کا ماخذ گوپی چند نارنگ کا مضمون ہے، اور ہم بس اتنا ہی جانتے ہیںجتنا انھوں نے بانی کے کوائف کے سلسلے میں اپنے مضمون کے آغاز میں لکھ رکھا ہے۔
جناب ارشد نعیم، نوید صادق اور شاہد ماکلی کے مضامین نہایت مختصر وقت میںان کے فکری و تنقیدی تجزیے کے حامل ہیں۔ کچھ اہلِ نقد و نظر نے بانی پر لکھنے کا وعدہ فرمایا مگر چوں کہ اس شمارے کی اشاعت کے لیے وقت انتہائی محدود تھا، سو جو ہے، اس پر اکتفا کرنا پڑا۔
ہم ان تمام احباب کے بھی شکرگزار ہیں جنھوں نے بانی نمبر کی اشاعت پر اپنی پسندیدگی اور دل چسپی کا اظہار فرمایا، اور ان کے بھی، جنھوں نے بانی نمبر کی اشاعت پر ہاہا کار تو نہیں مچائی البتہ ’’ذرا عدم دلچسپی‘‘ کے باعث متوقع ’’بانی نمبر‘‘ کو ’’مُردہ پرستی‘‘ سے تعبیر ضرور کیا۔چہ خوب؟—معلوم نہیں ان کی کیا مشکل ہے؟ چلیے خیر—ہم ان سے یہ ضرور پوچھنا چاہیں گے کہ اگر اسے ’’مردہ پرستی‘‘ (جو اس وقت محض دور از کار اصطلاح کے طور پر ان کی خودپسندانہ طبعیت کے جوہر سے برآمد ہوئی ہے) قرار دے لیا جائے تو پھر وہ تمام اہلِ فن جو دنیا سے گزر چکے، اور اپنے اپنے معیار کے لحاظ سے ہم زندوں سے زیادہ استحقاق بھی رکھتے ہیں، فراموش کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ کہیں مردہ پرستی کا لیبل چسپاں نہ ہو جائے۔لیکن —وہ تو خیر کسی نہ کسی طور اپنے معیار کی بدولت زندہ رہ جائیں گے مگر آپ—آپ کو سوچنا پڑے گا۔ارے بھائی! کیا مردے تمام حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں؟ زندوں کی کم از کم انھیں دُعائیں تو پہنچنی چاہییں۔ یہاں تو آں جہانی کو ہماری دُعا کی بھی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی شاعری کے بل بوتے پر آج بھی زندہ ہے اور جہاں تک اردو غزل کی آواز پہنچتی ہے، آں جہانی بانی کی آواز گونجتی رہے گی۔
ایں جہانی کے لیے کہ یہ اصطلاح جناب عباس رضوی صاحب کی تنقیدی اپج کی دین ہے، ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ انھیں ضرور سوچنا چاہیے اور ہمیں اُن سے پوری امید ہے کہ وہ ضرور سوچیں گے، بانی جیسی تخلیقی توانائی کا حصول لفظوں کی اچھل کود اور توڑ پھوڑ سے ممکن نہیں۔ بانی روایت سے اگر بغاوت بھی کرتا ہے تو معیارِ فن کی پاس داری کے ساتھ۔ وہ اپنے قاری کو چونکاتا نہیں، نہ اِدھر اُدھر اڑائے پھرتا ہے اور نہ ہی جناب شمس الرحمن فاروقی کے ممدوح ظفر اقبال کی طرح غزل کو بازیچۂ اطفال بنائے ہوئے ہے، البتہ اپنی بے پناہ تخلیقی قوت سے تحیر کی فضا پیدا کرکے اپنے پڑھنے والوں کو سحرزدہ ضرور رکھتا ہے۔اس کے ہاں اسلوب کا اُتار چڑھائو نہیں بل کہ ایک پرُکشش اور ہموار سطح ہے جس پر چلتے ہوئے نہ تو خود اس کے قدم لڑکھڑاتے ہیں اور نہ ہی اس کے قاری کو کسی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی لے میں شورشرابا نہیں کہ سماعتوں میں سیسہ پگھلنے لگے۔ ایک دل کش آواز جو کانوں کو یوں بھلی لگے کہ سننے والا اس کے ساتھ بہتا چلا جائے۔ اس کی نظر ان امکانات کی جانب سفر کرتی ہے جدھر ان کے بعض ہم عصروں کا خیال نہیں جاتا۔اور اگر جاتا بھی ہے تو اپنے مصرعوں کے پیچ دار الجھائو میں خود ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں، ابلاغ تو بڑی دُور کی بات ہے۔
اس ادارتی تحریر میں ہمارا منصب بانی کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لینا نہیںہے۔ بس ایک
تاثر پیش کرنا مقصود ہے۔ یوں بھی اس نمبر میں شاملِ اشاعت مضامین میں جناب گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، مغنی تبسم جیسے نقادوں کے جلو میں جناب ارشد نعیم، نوید صادق اور شاہد ماکلی یہ فریضہ بخوبی انجام دے چکے ہیں۔ اور پھر جناب عباس رضوی صاحب کے مجموعۂ مضامین پر خود ان کا اپنا فلیپ بھی ایک الگ خصوصیت رکھتا ہے اور اس نمبر میں ان کی اجازت سے شامل کر لیا گیا ہے۔
میں یہاں آخر میں اِس قدر اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ بانی کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔ وہ اپنی شاعری میں آج بھی اتنا ہی تازہ ہے جتنا پینتیس سال پہلے تھا۔ اس کے شعری استعارے روایت کی جڑوں سے پیوست ہونے کے باوجود جدید سے بھی جدید تر ہیں۔ اس کے تجربہ و مشاہدہ سے ظہور کرتی ہوئی باریک بینی اور شعری تاثیر کی حدت اپنی جدت کے ساتھ اس کے ایک ایک شعر سے عیاں ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک شعر۔ بانی نے اپنی شاعری میں کتنے ہی معاشرتی، تہذیبی اورذات و کائنات سے لے کر ممکنات و ناممکنات میں دَر آنے والے المیّوں کی نشان دہی کی ہے، انھیں پڑھتے ہوئے حیرتوں کے کئی باب کھلتے ہیں، اور یہ شعر:
وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے

یہ شب انھیں بھی سرِ رہ گزار لے آئی
اگرچہ بانی کی ہجرت کے گہرے دُکھ کی علامت ہے مگر اسے اگر دوسرے تناظر میں دیکھا جائے تو ایک ایسے اجتماعی المیےکا علامتی اظہار ہےجو ہمارے غیرمحفوظ معاشرےکا نمایاں حصہ ہے۔ ایسے کتنے ہی شعر ہیں،جو لمحہ لمحہ روکتے ہیں اور اپنی کیفیت میں گرفتار کر لیتے ہیں۔بظاہرجہاں، بانی کی شاعری میں محاکات اور منظرنگاری کا عمل نظر آتا ہے اور اس کی ظاہری سطح پر چمک دمک کا سماں پیدا کرتا ہے،وہاں بھی اس سطح کے نیچے بانی کی اپنی ذات کے ساتھ اجتماعی آشوب موجود ہے۔یوں یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگر ہم بانی کی شعری کیفیات کو اس کے محاکاتی اسلوب کی پیچیدگی کو سمجھے بغیر کوئی فیصلہ صادر کر دیں۔
بانی کے ہم عصروں میں جو زندہ ہیں انھوں نے شاعری کے معیار کو کتنا بلند کیا اور بانی نے صرف ۴۹ سال کی عمر تک شعری امکانات کی خوب سے خوب تر کن حدوں کو چھوا— ’’اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی‘‘ — آج بھی ہماری سوچ کے دریچے وا کرتی ہے۔ بھارت میں کلیاتِ بانی کی اشاعت بھی ہو چکی مگر وہ ہماری دست َرس سے فی الحال دُور ہے۔غنیمت ہے کہ بانی کے تین عدد مجموعاتِ شعر جناب اعجاز گل کی کرم فرمائی سے پڑھنے کے لیے مہیاہو گئے۔بانی کا انتخابِ کلام اس نمبر کا نمایاں حصہ ہے۔ نقادوں کی آرا اپنی جگہ۔کم از کم بانی کا کلام، بانی کی عظمتِ تخلیق کا ازخود شاہد ہے اور ہم سب کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔
ہم نہ ’’مردہ پرست ہیں‘‘، نہ ’’زندہ پرست‘‘۔ ہمارا مقصد تو بس یہ ہے کہ جو جس کا اہل ہے، اس کو اتنا ضرور تسلیم کیا جائے۔’’فانوس‘‘ کی گزشتہ اشاعت میں بھی یہ اظہار ہو چکا ہے۔ آیندہ بھی ہم یہ ثبوت پیش کرتے رہیں گے۔ مختلف شماروں میں نوجوان شعرا میں اختر عثمان اور شاہین عباس کے خصوصی گوشوں کے ساتھ’’ فانوس‘‘ نے یہ حق پہلے بھی ادا کرنے کوشش کی ہے۔۔ یوں نام وَر نقاد اور شاعر ڈاکٹر سعادت سعید کے مقالے اوراُن پر گوشۂ خاص کی اشاعت کا اعزاز بھی فانوس کو حاصل ہے۔ بانی کے اس مختصر سے نمبر کے بعدہم کسی ایک شمارے کو ظفر اقبال کے لیے بھی مخصوص کرنا چاہتے ہیں۔ یوں ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا اور اَہم ادبی شخصیات کی ادبی خدمات کے اعتراف کا فریضہ ’’فانوس‘‘ اپنے وسائل کے مطابق ادا کرنے کی کوشش کرتا رہے گا۔
اس طول بیانی کے لیے معذرت۔امید ہے کہ یہ نمبر بالخصوص پاکستان اور تمام اردو دنیا میں بانی کے فکری گوشوں کو وا کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

Related posts

Leave a Comment