سید آل احمد ۔۔۔ دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا

دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا دیدہ ور تھا دوری کو اختلاط لکھتا تھا زخم زخم گنتا تھا روشنی میں جگنو کی حرف حرف پلکوں پر سچی بات لکھتا تھا میں بھی ان خلاؤں میں ایک لحظہ پہلے تک خواب کا مسافر تھا‘ خواہشات لکھتا تھا صبحِ جاں کی شبنم ہو‘ دُھوپ ہو بدن کی تم سچ بتاؤ یہ جملے کس کا ہات لکھتا تھا برگِ زرد ہونے تک میں ہوا کی تختی پر منتظر نگاہوں سے التفات لکھتا تھا پوچھتے ہیں بام و در‘ کون‘ شہر ناپرساں!…

Read More

استاد قمر جلالوی

ایک جا رہنا نہیں لکھا میری تقدیر میں آج گر صحرا میں ہوں کل خانۂ زنجیر میں اقربا نا خوش وہ بزمِ دشمنِ بے پیر میں موت ہی لکھی ہی کیا بیمار کی تقدیر میں بات کر میری لحد پر غیر ہی سے بات کر یہ سنا ہے پھول جھڑتے ہیں تری تقریر میں سیکھ اب میری نظر سے حسن کی زیبائشیں سینکڑوں رنگینیاں بھر دیں تری تصویر میں پاسِ آدابِ اسیری تیرے دیوانے کو ہے ورنہ یہ زنجیر کچھ زنجیر ہے زنجیر میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں ان کو وہ…

Read More