حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے

سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا کے پوچھتی ہے وہ ممالک کہ جن کے جھنڈوں پر امن کی فاختائیں بیٹھی ہیں جنگ کے گیت گا رہے ہیں وہی اجلی اجلی سی صبح کی تتلی کیوں چپکنے لگی ہے کھڑکی سے؟ جالیاں پوچھتی ہیں شیشوں سے سنگ باراں کی تہہ میں کیا اب بھی کل کی وحشی ہوائیں دبکی ہیں؟ کیا تصادم کا کھیل جاری ہے ! ۔۔۔۔۔۔۔۔

Read More

نظام رامپوری ۔۔۔ وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے مرے پاس کیوں آپ آنے لگے کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے یہ کیا جذبِ دل کھینچ لایا انھیں مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے ہمارے ہی آگے گلے غیر کے ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

Read More

محمد علوی ۔۔۔ آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں اِک اِک کھڑکی میں اُس کو پاتا ہوں میں اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں ٹھہر ذرا گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں گاڑی آتی ہے لیکن آتی…

Read More

محمد علوی ۔۔۔ سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا

سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا لیکن اُسے ذلیل کیا یہ برا کیا گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں کرسی نے اُس کو دیکھ کے آغوش وا کیا گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اُتر پڑے بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اُڑا کیا اُس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی…

Read More