اُس نے ایسے کہا " شکریہ محترم " میں بھی خود کو سمجھنے لگا محترم مجھ سے ملتے ہوئے عام سا وہ لگا ذکر تیرا کیا اور ہُوا محترم شاہ کا ہاتھ ہم کو یہ سمجھا گیا بجھ کے ہوتا ہے کیسے دِیا محترم راہ پوچھی ہے ہم کو بتا دیجیے ہم نے مانگا ہے کب مشورہ محترم پتھروں کے نگر سے نکالیں مجھے لوٹ آئے گی میری صدا محترم پاؤں میرے زمیں پر یہ ٹکتے نہ تھے نام کے ساتھ لکھا گیا محترم خود شناسی کی منزل ہمیں جب ملی کھل گیا ہم پہ بابِ فنا محترم
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...