عاجز کمال رانا … گریہ زاری کے لیے اور دہائی کے لیے

گریہ زاری کے لیے اور دہائی کے لیے ہم تو بس پیدا ہوئے اشک نمائی کے لیے بعد ازاں عشق ہوا ایک حسینہ سے مجھے میں تو اس شہر میں آیا تھا پڑھائی کے لیے عہد و پیمان کیے اپنے مقدر سے مگر دستخط جسم کی تختی پہ خدائی کے لیے روز و شب لوگ محبت کے بیابانوں میں مسکراتے ہوئے ملتے ہیں جدائی کے لیے کھوج کرنی تھی گل و خار کے شجروں کی مجھے اک سبب ڈھونڈنا تھا ہرزہ سرائی کے لیے شہرِ جھنگ آیا ہوں میں ذوقِ…

Read More