عاجز کمال رانا … گریہ زاری کے لیے اور دہائی کے لیے

گریہ زاری کے لیے اور دہائی کے لیے
ہم تو بس پیدا ہوئے اشک نمائی کے لیے

بعد ازاں عشق ہوا ایک حسینہ سے مجھے
میں تو اس شہر میں آیا تھا پڑھائی کے لیے

عہد و پیمان کیے اپنے مقدر سے مگر
دستخط جسم کی تختی پہ خدائی کے لیے

روز و شب لوگ محبت کے بیابانوں میں
مسکراتے ہوئے ملتے ہیں جدائی کے لیے

کھوج کرنی تھی گل و خار کے شجروں کی مجھے
اک سبب ڈھونڈنا تھا ہرزہ سرائی کے لیے

شہرِ جھنگ آیا ہوں میں ذوقِ خریداری میں
چوڑیاں لوں گا ترے دستِ حنائی کے لیے

شاخ نکلی ہے بدن سے تری دستار کے ساتھ
بیل لپٹی ہے مرے در پہ بڑائی کے لیے

ایک آواز ہے خاموشی کے سالاروں میں
راستہ چاہیے بس اس کو لڑائی کے لیے

پاک شے تھی اسے ناپاک جگہ رکھا گیا
تسمیہ پڑھتے رہے لوگ برائی کے لیے

کون سا ذائقہ چکھا نہیں رسوائی کا
کون سا دشت نہیں چھانا کمائی کے لیے

پھول بکتے ہیں گلی کوچوں میں خوشبو کے بغیر
خط نکلتے ہیں محبت کی بدھائی کے لیے

لفظ چبھتے ہیں لبوں پر مرے کانٹوں کی طرح
رخصتی لکھنی ہے بہنوں کی سگائی کے لیے

خون آلود ہیں قالین ہمارے عاجز
ہم نے پوشاک اتاری تھی صفائی کے لیے

Related posts

Leave a Comment