عمر قیاز قائل ۔۔۔ آشنا میرے مری بات جو مانے ہوتے

آشنا میرے مری بات جو مانے ہوتے ساتھ چلنے کے لیے آج زمانے ہوتے تو مری راہ کی دیوار بنا ہے کب سے ورنہ ہر لب پہ مرے آج فسانے ہوتے کتنا انمول بِکا حُسن ترا گلیوں میں میں ہی لے لیتا اگر پاس خزانے ہوتے تُو شبِ غم کی اذیت سے جو گزرا ہوتا دوست ایسے نہ ترے حیلے، بَہانے ہوتے اَب جو آسائشیں حاصل ہیں تو یہ سوچتا ہُوں کاش ہمراہ مرے دوست پُرانے ہوتے فیصلہ جس نے بہت سخت سنایا قائل کاش اُس نے مرے حالات بھی…

Read More

عمر قیاز قائل ۔۔۔ دِل سمندر تھا مگر غم بھی ہَوا جیسا تھا

دِل سمندر تھا مگر غم بھی ہَوا جیسا تھا جو بھی لمحہ تھا میسر وہ سزا جیسا تھا اُس کے سانسوں کی حرارت سے خبر ملتی تھی میرے ماحول میں وہ شخص صدا جیسا تھا میں تہی دست اُسی شہر سے لوٹ آیا ہُوں وہ کہ جس شہر کا ہر شخص خُدا جیسا تھا ڈھانپ رکھا تھا سرِ شہر برہنہ اُس نے جسم سے لپٹا ہوا کوئی قبا جیسا تھا وقت نے چھین لیا اُس کو بھی آخر قائل وہ جو کشکولِ تمنا میں عطا جیسا تھا

Read More