عمر قیاز قائل ۔۔۔ دِل سمندر تھا مگر غم بھی ہَوا جیسا تھا

دِل سمندر تھا مگر غم بھی ہَوا جیسا تھا
جو بھی لمحہ تھا میسر وہ سزا جیسا تھا

اُس کے سانسوں کی حرارت سے خبر ملتی تھی
میرے ماحول میں وہ شخص صدا جیسا تھا

میں تہی دست اُسی شہر سے لوٹ آیا ہُوں
وہ کہ جس شہر کا ہر شخص خُدا جیسا تھا

ڈھانپ رکھا تھا سرِ شہر برہنہ اُس نے
جسم سے لپٹا ہوا کوئی قبا جیسا تھا

وقت نے چھین لیا اُس کو بھی آخر قائل
وہ جو کشکولِ تمنا میں عطا جیسا تھا

Related posts

Leave a Comment