وہ نہ آئے تو سحر کیوں آئے
میرا سایہ بھی نظر کیوں آئے
مَیں تو دریا ہوں، ملوں خود جا کر
وہ سمندر ہے، اِدھر کیوں آئے
زندگی لائی مگر کیوں لائی
ہم یہاں آئے مگر کیوں آئے
مَیں ترا عکس ہوں، اپنا تو نہیں
آئنہ پیشِ نظر کیوں آئے
پہنچے منزل پہ تو آئی آواز
اوڑھ کر گردِ سفر کیوں آئے
آئنہ ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا
اب کوئی آئنہ گر کیوں آئے
مدتوں بعد ملا تھا وہ حزیں
اُس سے کترا کے گزر کیوں آئے