اسیر یونہی نہیں سب مری فغاں کے ہیں
سنا رہا ہوں جو دکھڑے اسی جہاں کے ہیں
مرا سکوت نہیں بے سبب مرے بھائی!
کہ زخم کھا ئے ہیں جتنے سبھی زباں کے ہیں
یہ آنکھ ہوتی نہیں منظروں سے کیوں مانوس
یہ ارد گرد مرے لوگ سب کہاں کے ہیں
کمال حوصلہ درکار ہے بلا کا ضبط
گزر رہے ہیں جو لمحات امتحاں کے ہیں
دکھائی دیتا ہے جو چار سو حقیقت ہے
کہ انتشار میں اوراق داستاں کے ہیں
یہ خستگی در و دیوار کی بتاتی ہے
مکیں کے جتنے بھی دکھ تھے وہ اب مکاں کے ہیں
گزر چکے ہیں جو دن قیمتی ہیں میرے لیے
جو دل پہ ثبت ہیں سب نقش رفتگاں کے ہیں