زندہ رہنے کا جو پیمان کیا ہے میں نے سر بسر اپنا ہی نقصان کیا ہے میں نے شعر کہتے ہوئے اک اشک نکل آیا تھا اس کو بھی داخلِ دیوان کیا ہے میں نے مجھ کو دکھ ہے مرے معبود ترے ہوتے ہوے اپنی تنہائی کا اعلان کیا ہے میں نے پیڑ کا سایہ مجھے اپنی طرف کھینچتا تھا تیری دیوار پہ احسان کیا ہے میں نے وہ تماشا کیا میں نے جو اسے کرنا تھا آج تو آگ کو حیران کیا ہے میں نے
Related posts
-
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو... -
سعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار...